Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں پیش رفت، جنگ بندی میں توسیع کا اعلان

ایک اعلٰی عہدیدار کے مطابق ’ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان کچھ متنازع امور پر بات چیت جاری ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی قبائلی جرگے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جاری مذاکرات کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے تا حکم ثانی جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے جمعرات کو جاری بیان میں اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دو دن سے جاری اس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چند دنوں میں مزید نشستیں بھی منعقد کی جائیں گی۔
اس سے قبل مذاکرات میں شریک ایک اعلٰی عہدیدار نے اردو نیوز کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کچھ امور پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جبکہ دیگر متنازع امور پر بات چیت جاری ہے جس کے کئی ادوار ہوں گے۔   
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات اور کابل مذاکرات میں سرکاری نمائندے کی حیثیت سے شریک ہونے والے بیرسٹر محمد علی سیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’زیر بحث معاملات میں سے کچھ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جن پر نہیں ہوا ان پر بات چیت جاری ہے۔‘ 
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کن امور پر اتفاق رائے ہوا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تفصیلات نہیں بتاسکتے کیونکہ جرگہ ابھی جاری ہے اور وہ اس وقت بھی اس کے ایک اجلاس میں شریک ہیں۔ 
’جرگے کا تیسرا دور ابھی ابھی شروع ہوا ہے اور میں اس میں موجود ہوں۔ ہم پرسوں سے اس (جرگے) میں مصروف ہیں۔ کئی معاملات پر بات چل رہی ہے۔ مزید تفصیلات بعد میں بتائی جائیں گی۔‘ 
پاکستان کے پشتون قبائلی جرگے کی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے کابل جانے کی اطلاعات رواں ہفتے کے آغاز سے گردش کر رہی تھیں اور سوشل میڈیا پر مختلف قبائلی عمائدین کی ایک جہاز میں بیٹھے ہوئے تصویریں بھی جاری ہوئی ہیں۔ 
جرگے میں قبائلی عمائدین کے علاوہ خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندے بیرسٹر محمد علی سیف، پاکستان کے وفاقی وزیر ساجد طوری اور کچھ سینیٹرز بھی شامل ہیں۔ 
اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات کے انعقاد کے لیے افغان طالبان نے سرگرم کردار ادا کیا ہے اور ان کے کچھ نمائندوں نے اس موضوع پر ٹی ٹی پی عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ 

حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات میں افغان طالبان نے سرگرم کردار ادا کیا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان مذاکرات سے آگاہی رکھنے والے آزاد ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے نمائندوں سے پاکستان کے کچھ اعلٰی سکیورٹی عہدیداروں کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں اور جرگے کی کابل روانگی سے قبل اس کے ارکان کو ان مذاکرات کے بارے میں آگاہ بھی کیا گیا تھا۔ 
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران جنگ بندی پر بظاہر اتفاق ہوا ہے تاہم ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے انتہائی سخت شرائط عائد کی گئی ہیں جن میں سے قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ واپس لینا ایک ہے۔  
ٹی ٹی پی کی دوسری سخت شرط قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی ہے جس پر عمل کرنا حکومت پاکستان کےلیے فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔ 
اس کے علاوہ ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکام کو اپنے 102 ارکان کی رہائی کے لیے ایک فہرست بھی فراہم کی تھی جس میں سے چند ایک کی رہائی کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں تاہم کچھ ایسے افراد جن پر قتل، دہشت گردی اور دیگر سنگین الزامات عائد ہیں ان کی رہائی کے لیے ابھی بات چیت ہو رہی ہے۔ 
ٹی ٹی پی کے ارکان کی پاکستان واپسی سے متعلق حکومت پاکستان نے ان سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور ان سے ضمانت طلب کی ہے کہ وہ ہتھیار پھینکیں گے اور آئندہ غیر مسلح اور پرامن رہیں گے۔ 

حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی سے ضمانت طلب کی ہے کہ وہ ہتھیار پھینکیں گے اور آئندہ غیر مسلح اور پرامن رہیں گے (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان اور افغانستان کے سلامتی امور پر گہری نظر رکھنے والے پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر سعد محمد کے مطابق بظاہر ان مذاکرات کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور اگر یہ کامیاب ہو گئے تو یہ مکمل طور پر ٹی ٹی پی کی شرائط پر ہوں گے۔  
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران جنگ بندی پر ہونے والے اتفاق کی اطلاع عملی طور پر موثر نہیں ہے کیونکہ اب بھی پاکستانی سرکاری اداروں بالخصوص پولیس پر حملے جاری ہیں۔  
بریگیڈیئر سعد کے مطابق اگر مذاکرات کے بعد کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو اس کی پاسداری کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ٹی ٹی پی ماضی میں بھی متعدد بار اپنی باتوں سے پھر چکی ہے۔  
’وہ کئی بار دھوکہ کرچکے ہیں۔ ان سے آخر میں لڑائی ہی لڑنا پڑے گی۔ ان کی شرائط کہ قبائلی علاقوں کا انضمام واپس لیا جائے اور وہ اسلحے کے ساتھ واپس آئیں گے، بہت سخت ہیں۔ اے پی ایس پر حملہ کرنے والوں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ فاٹا انضمام کی واپسی کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘ 
بریگیڈیئر سعد کا کہنا تھا کہ ’ان مذاکرات میں افغان طالبان کا کردار انتہائی محدود ہے۔ ‘

بیرسٹر سیف کے مطابق ’زیر بحث معاملات میں سے کچھ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جن پر نہیں ہوا ان پر بات چیت جاری ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

’وہ صرف بات چیت کروانے میں مخلص ہیں، ٹی ٹی پی پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ وہ دنیا کو کروائی گئی اپنی یقین دہانیوں پر بھی عمل نہیں کروا سکے۔ انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی نہیں ہو گی۔ لیکن اب بھی ٹی ٹی پی وہاں موجود ہے، القاعدہ ہے، داعش ہے، اور کئی گروپس ہیں جو وہاں فعال ہیں۔‘  
طالبان امور پر مہارت رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار طاہر خان کے مطابق افغان طالبان ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں حتمی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ 
’افغان طالبان صرف سہولت کار ہیں۔ ان پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ ان کو افغانستان سے نکال بھی نہیں سکتے کیونکہ جب وہ پاکستان آئے تھے تو ٹی ٹی پی کے مہمان تھے، ٹی ٹی پی نے ان کی بیعت کی ہوئی ہے اور افغان طالبان کے ارکان کی اکثریت ریاست پاکستان کی پالیسیوں کی مخالف ہے۔‘ 
طاہر خان کے مطابق مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا پیچیدہ ہے تاہم اس کے لیے راستے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اسی لیے پاکستانی قبائل کو شامل کیا گیا ہے۔  
’اگر ان مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی میں توسیع ہوتی ہے تو یہ بنیادی چیز ہو گی۔ لیکن ٹی ٹی پی کے مطالبے پر جن چند لوگوں کو رہا کیا گیا ہے وہ اتنے اہم نہیں ہیں۔ اس لیے ابھی دیکھنا ہوگا کہ یہ مذاکرات آگے کیسے بڑھتے ہیں۔‘ 

تحریک طالبان پاکستان نے قبائلی علاقوں کے خیبر پختنونخوا میں انضمام کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانی طالبان کی سخت شرائط پر بات کرتے ہوئے طاہر خان نے کہا کہ ’وہ لوگ جنگ لڑ رہے ہیں، بیانات سے جنگجوؤں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن یہ سخت شرائط پوری نہیں ہوسکتیں۔‘ 
افغانستان اور پاکستان کے سکیورٹی امور پر عبور رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار اور فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے پاکستان میں نمائندے سجاد ترکزئی کے مطابق قبائلی انضمام کے خاتمے، فوجوں کی واپسی اور قیدیوں کی رہائی کے علاوہ امن معاہدے کو ممکن بنانے کے لیے ایک اور اہم معاملہ ٹی ٹی پی کی مقامی قبائل اور عمائدین کے ساتھ ذاتی دشمنیاں بھی ہیں۔ 
’ٹی ٹی پی نے بہت سارے قبائلی رہنما اور ملک (سربراہ) قتل کیے ہوئے ہیں، اب انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ پاکستان واپس آتے ہیں تو ان مقتولین کے رشتہ دار قبائلی روایات کے مطابق بدلہ لینے کے لیے ان کے اوپر حملے کریں گے۔ اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے بھی جزیات طے کی جا رہی ہیں۔ صلح، خون بہا کی ادائیگی اور دیگر ممکنہ امور پر بات چیت کی جا رہی ہے۔‘  

شیئر: