Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغربی افریقہ میں فوجی بغاوتوں نے جمہوری ترقی کو پٹڑی سے اتار دیا

مستقبل میں فوجی مداخلت روکنے کے لیے مستحکم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ فوٹو عرب نیوز
مغربی افریقہ میں ساحل کے وسیع نیم بنجر علاقے میں فوجی بغاوتوں کے ایک سلسلے نے خطے کے سیاسی استحکام اور جمہوری تبدیلی کو شدید دھچکا پہنچایا ہے جس سے بے یقینی اور عدم تحفظ کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق خطے میں اس کی تازہ ترین مثال نائیجر میں 26 جولائی کو ہونے والی بغاوت ہے،نائیجر میں صدارتی گارڈز نے ہی ملک کے منتخب صدر محمد بازوم کو معزول کر دیا۔
ایلیٹ فورس کے اس عمل کی بین الاقوامی برادری بشمول افریقی یونین اور مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری کی طرف سے شدید مذمت کی گئی ہے۔
نئی حکمران جماعت جس کی سربراہی جنرل عبدالرحمٰنے تیانی کر رہے ہیں، کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں لیکن بازوم کی حکمرانی کی بحالی کی امیدیں ہر گزرتے دن کے ساتھ دم توڑ رہی ہیں۔
اس بغاوت نے افریقہ میں جمہوری تبدیلیوں اور خطے میں سیاسی تحریکوں کی رفتار کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ افریقی خطے میں فوجی بغاوتوں نے اس جمہوری ترقی کو پٹڑی سے اتار دیا ہے جو متعدد افریقی ممالک نے کئی دہائیوں میں بڑی محنت سے حاصل کی تھی۔

موقع پرست فوجی اہلکاروں نے پسماندہ انسانی حالات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

فوجی بغاوتوں کی حالیہ لہر سے  قبل ایسا لگتا تھا کہ براعظم افریقہ جمہوری اداروں اور شراکتی نظام کے ساتھ مکمل سویلین حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
افریقہ میں اس طرح کی بغاوتوں کی تعداد میں سنہ2000 کے بعد سے کمی نظر آئی تھی لیکن  2020 میں مالی میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اس کے بعد 2021 میں فوجی قبضے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس میں چاڈ، گنی، سوڈان اور نائیجر میں بغاوت اور اس طرح کی کوششیں ہوئی ہیں۔
اسی طرح 2022 میں بھی افریقی خطے میں بغاوت کی پانچ کوششیں ہوئیں،جن میں سے دو برکینا فاسو میں کامیاب ثابت ہوئیں۔

افریقی ممالک کو درپیش منفرد چیلنجوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فوٹو عرب نیوز

خطے میں ان بغاوتوں کے اثرات متاثرہ ممالک کی سرحدوں سے باہر تک پھیلے ہوئے ہیں جو پورے براعظم میں پریشان کن ماحول پیدا کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی برادری اب ان کارروائیوں کو  مایوسی اور خدشات کے  تناظر میں دیکھ رہی ہے کیونکہ فوجی مداخلت کثرت سے ہو رہی ہے، جس سے کئی افریقی ممالک کے طویل مدتی استحکام کے بارے میں شکوک ابھر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک کو درپیش منفرد قسم کے چیلنجوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر ساحل کے علاقے میں جو بغاوت کے نتائج سے دوچار ہے۔

چاڈ، گنی، سوڈان اور نائیجر میں بغاوت اور اس طرح کی کوششیں ہوئی ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

افریقی خطے میں معاشی جمود، سیاسی عدم اطمینان اور تاریخی ورثے جیسی عدم استحکام کی بنیادی وجوہات کو دور کرنا بھی اہم ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے تعاون سے جمہوری طرز حکمرانی کی بحالی اور مستقبل میں فوجی مداخلت روکنے کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
نائیجیریا میں مقیم تجزیہ کار گبینگا ایرن کا کہنا ہے کہ افریقہ میں حالیہ بغاوتوں پر عملدرآمد موقع پرست فوجی اہلکاروں نے کیا ہے جو اپنی قوموں کے کمزور اداروں اور پسماندہ انسانی حالات کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

افریقی آبادی کا بڑا حصہ مختلف قسم کی محرومیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پورے براعظم میں اس بات پر وسیع اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ جمہوریت سب سے زیادہ سازگار حکمرانی کا ڈھانچہ پیش کرتی ہے۔
اس کے باوجود دہشت گردی، بدعنوانی، ناقص انفراسٹرکچر اور سماجی و اقتصادی پسماندگی کے مسائل کا مطلب یہ ہے کہ افریقی آبادی کا بڑا حصہ اس طرح کی محرومیوں کا سامنا کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے میں اس طرح کے چیلنجز بغاوت کی سازش کرنے والوں کے لیے بہانے کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔

شیئر: