Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یتیم کی کفالت ، ایک عظیم نیکی

دوستوں اور رشتہ داروں کو پر تکلف افطاری پر ضرور بلائیں مگر اپنے آس پاس ان محروم و بے سہارا لوگوں کا بھی خیال رکھنا مت بھولیں
* * * عبد المالک مجاہد۔ ریاض* * *
ایک بچی یا بچہ دنیا میں آتا ہے تو ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ وہ کسی کا بیٹا، کسی کا پوتا، کسی کا نواسہ ہوتا ہے۔ آگے بڑھتے جائیں، چلتے جائیں ،وہ کتنے ہی گھروں کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔ اپنے ننھیال جاتا ہے تو نانی اس کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی، خالہ کا پیار تو مثال بن جاتا ہے مگر قدرت کے اپنے فیصلے ہیں۔ اپنے بندے کی تقدیر کو وہی جانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کا زندہ رہنا بہتر اور مفید ہے اور کسے اس نے اپنے پاس بلا لینا ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات ہوئے ہیں، گھر کا سربراہ گھر سے نوکری کے لیے یا کاروبار کے لیے نکلا اور وہ راستہ میں ایکسیڈنٹ کا شکار ہوا اور اپنے رب کے پاس پہنچ گیا۔
بیوی شوہر کا اور بچے بابا کا انتظار کر رہے ہیں کہ اچانک ایک فون کال آتی ہے۔(اناللہ وانآالیہ راجعون) کی آواز کے ساتھ ہی گھر والوں کو یہ خبر ملتی ہے کہ خاتون کا سہاگ اجڑ گیا ہے۔ بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ بعض اوقات کوئی شخص کسی ظالم کی گولی یا دہشت گرد حملے کا شکار ہو جاتا ہے۔ کوئی بم دھماکہ یا خود کش حملہ ہوتا ہے اور گھر کا سربراہ اپنے رب کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ کوئی ڈاکو اسے لوٹ لے جاتا ہے۔ گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔
جب کمانے والا نہ رہے تو پھر اس خاتون سے پوچھیں جس کے بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اب وہ بھرا ہو ا گھر، جہاں ہر وقت مسکراہٹیں تھیں، وہاں سے سسکیوں کی آوازیں آتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسے گھرانوں، یتیم بچوں کی کفالت اپنے ذمہ لیتا ہے اور بیوہ عورتوں کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اسلام کی نگاہ میںاس کی اہمیت اور قدر ومنزلت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اللہ کے رسول ارشاد فرماتے ہیں: ’’بیوہ اور مسکین کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ‘‘ اللہ کے رسولنے یتیم بچوں کی مدد اور کفالت کا کس طرح اہتمام کیا،نیچے ذکر کیے گئے واقعہ سے ہمیںبڑی عمدہ رہنمائی اور بہت شاندار تربیت میسر ہوتی ہے۔ یثرب کی بستی کھجوروں کی بستی جونبی کریمکی آمد کے بعد اب مدینہ النبی کہلاتی تھی، اس میں ہر طرف مختلف باغات تھے‘ ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان کے مختلف مالکان تھے، انہی باغات میں ایک یتیم بچے کا باغ بھی تھا، اس کے ساتھ ایک دوسرے آدمی کا باغ تھا، کھجوروں کے درخت اس طرح آپس میں ملے ہوئے تھے کہ آندھی یا بارش میں کھجوریں نیچے گر پڑتیں تو آپس میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتی کہ یہ کس درخت سے گری ہیں۔
یتیم نے سوچا کہ کیوں نہ میں دیوار کے ذریعے اپنے باغ کو علیحدہ کرلوں تاکہ ملکیت واضح ہو جائے، کسی قسم کا تنازع اور جھگڑا نہ کھڑا ہو۔ چنانچہ اس نے دیوار بنانا شروع کی، جب اس نے دیوار بنانا شروع کی تو اس کے ہمسائے کی کھجور کادرخت درمیان میں حائل ہوگیا، دیوار سیدھی اس صور ت میں ہوتی تھی جب اس کو یہ درخت مل جاتا۔ یتیم بچہ اپنے ہمسائے کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کے باغ میں بہت ساری کھجوریں ہیں، میں دیوار بنا رہا ہوں، آپ کی ایک کھجور راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے، یہ کھجور مجھے دے دیں تو میری دیوار سیدھی ہو جائے گی، اس شخص نے انکار کر دیا۔ بچے نے کہا: اچھا آپ مجھ سے اس کی قیمت لے لیں تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی کر لوں۔ اس نے کہا: میں اسے بیچنے پر بھی تیار نہیں۔ یتیم نے خوب اصرار کیا، ہمسائیگی کا واسطہ دیا مگر اس پر دنیا سوار تھی، نہ یتیمی کا لحاظ نہ ہمسائیگی کا پاس۔ یتیم نے کہا: دیکھئے جناب!کیا میں اپنی دیوار نہ بنائوں، اس کو سیدھا نہ کروں۔ ہمسائے نے کہا: یہ تمہارا معاملہ ہے‘ تم جانو تمہارا کام جانے! تمہاری دیوار سیدھی رہے یا ٹیڑھی، مجھے اس سے کوئی غرض نہیںمگر میں کھجور کو فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
یتیم جب اس سے مکمل مایوس ہوگیا توخیال آیا کہ ایک ایسی شخصیت ہیں اگر وہ سفارش کر دیں تو میرا کام بن سکتا ہے۔ دل میں خیال آتے ہی قدم مسجد ِنبوی کی جانب اٹھ گئے۔ یتیم بچہ مسجد نبوی میں آیا تو سیدھا اللہ کے رسول کے پاس پہنچا‘ عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باغ فلاں آدمی کے باغ سے ملا ہوا ہے۔ میں اس کو علیحدہ کرنے کے لیے درمیان میں دیوار بنا رہا ہوں مگر دیوار اس وقت تک سیدھی نہیں بنتی جب تک راستے میں آنے والی ایک کھجور میری ملکیت نہ بن جائے‘ میں نے اس کے مالک سے عرض کی کہ وہ مجھے فروخت کردے‘ میں نے اس کی خوب منت سماجت کی مگر اس نے انکار کر دیا ہے، اللہ کے رسول !میری اس سے سفارش کر دیجیے کہ وہ کھجورمجھے دے دے۔
آپنے فرمایا:جائو !اس شخص کو بلا کر لے آئو۔ یتیم اس کے پاس گیا اور کہا : اللہ کے رسول تمہیں بلا رہے ہیں‘ وہ مسجد ِنبوی میں آیا ‘ آپنے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: تمہارا باغ اس یتیم کے باغ سے ملا ہوا ہے‘ یہ یتیم بچہ دیوار بنا کر اپنے باغ کو تمہارے باغ سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے‘تمہاری ایک کھجور اس کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ تم ایسا کرو کہ یہ کھجور اپنے بھائی کو دے دو۔ کہنے لگا : میں تو نہیں دوں گا۔ آپ نے پھر فرمایا: اپنے بھائی کو یہ کھجور دے دو! اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے پھر فرمایا: اپنے بھائی کو کھجور دے دو، میں تمہیں جنت میں کھجور کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس شخص نے اتنی بڑی پیشکش سننے کے باوجود کہا: نہیںجناب! میں یہ کھجور نہیں دوں گا۔
آپ اب خاموش ہوگئے‘ اس سے زیادہ کچھ کہنا آپ نے مناسب خیال نہیں کیا کیونکہ اسلام لوگوں کی ذاتی ملکیت کاحق تسلیم کرتا ہے۔ صحابہ کرام خاموشی سے ساری گفتگو سن رہے ہیں‘ حاضرین مجلس میںرسول اللہ کے مشہور صحابی سیدنا ابو دحداحؓ بھی شامل تھے۔ مدینے میں ان کا بڑا خوبصورت باغ تھا ‘ 600کھجور کے درختوں پر مشتمل باغ اپنے پھل کے سبب بڑا مشہور تھا۔ اس باغ کی کھجوریں اعلیٰ قسم کی شمار ہوتی تھیں‘ منڈی میں ان کی بڑی شہرت تھی۔ مدینے کے بڑے بڑے تاجر اس بات کی حسرت اور خواہش کرتے تھے کہ کاش، یہ باغ ان کی ملکیت ہوتا۔ سیدناابو دحداحؓ نے اس باغ کے وسط میں اپنا خوبصورت ساگھر تعمیر کر رکھا تھا‘ بیوی اور بچوں کے ساتھ وہیں رہائش پذیر تھے‘ میٹھے پانی کے کنویں نے اس باغ کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا۔
سیدناابو دحداح ؓنے جب اللہ کے رسولکی پیش کش سنی تو دل میں خیال آیا کہ اس دنیا کا کیا ہے؟ آج نہیں تو کل مرنا ہے اور پھر ہمیشہ کی زندگی ‘ عیش وآرام یا دکھ و آلام کی زندگی ہوگی۔ اگر جنت میں ایک کھجور مجھے مل جائے تو کیا کہنے! آگے بڑھے اور کہا :اللہ کے رسول یہ جو پیش کش آپ نے کی ہے، صرف اسی شخص کے لیے ہے یا اگر میں اس آدمی سے اس کھجور کو خرید کر اس یتیم بچے کو دے دوں تو مجھے بھی جنت میں وہ کھجور مل سکتی ہے؟ آپنے فرمایا:ہاں تمہارے لیے بھی جنت میں کھجور کی ضمانت ہے۔ اب ابو دحداح ؓسوچنے لگے کہ ایسی کون سی چیز ہے جو میں اس شخص کو دے کر اس سے وہ کھجور خرید لوںاور پھر اس یتیم کو دے دوں۔پھراچانک ہی ایک عجیب فیصلہ کیا،اس آدمی سے مخاطب ہوئے، کہا: سنو ! تم میرے باغ سے واقف ہو جس میں میرے 600کھجوروں کے درخت، گھر اور کنواں ہے۔ اس نے کہا : مدینے میں کون ہوگا جو اس باغ کو نہ جانتا ہو،کہا: تم ایسا کرو کہ میرا سارا باغ اس ایک کھجور کے بدلے میں لے لو۔ اس آدمی کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا، اس نے مڑ کر ابودحداحؓ کی طرف دیکھا: پھر لوگوں کی طرف دیکھا، سن رہے ہو، ابودحداحؓکیا کہہ رہا ہے؟۔
ابو دحداحؓنے پھر اپنی بات کو دہرایا،‘ لوگوں کو اس پر گواہ بنایا‘ چنانچہ اس ایک کھجور کے بدلے میں اپنا سارا باغ ،کنواں اور گھر اس آدمی کو دینے کا اعلان کر دیا۔ادھر جب اس کھجور کے مالک بن گئے تو اس یتیم بچے سے کہا:اب وہ کھجور تمہاری ہوگئی ، میں نے اسے تم کو تحفے میں دے دیاہے، جاؤ!اپنی دیوار سیدھی بنائو، اب تمہارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ اس کے بعد اللہ کے رسولکی طرف رخ کیا، عرض کیا: یا رسو ل اللہ کیا اب میں جنت میں کھجور کا مستحق ہوگیا ہوں؟ آپ نے فرمایا تم ایک کھجور کی بات کرتے ہو، سنو: ابود حداح کے لیے جنت میں کھجوروں کے کتنے ہی جھنڈ ہیں۔
حدیث کے راوی سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ آپنے یہ الفاظ ایک دو یا تین مرتبہ نہیں بلکہ خوشی کے ساتھ متعدد بار دہرائے۔ ابو دحداحؓ وہاں سے روانہ ہوئے۔ جنت میں باغات کی خوشخبری پانے کے بعد اپنے باغ کی طرف روانہ ہوئے۔ دل میں خیال آیا کہ ذاتی کپڑے، کچھ ضرورت کی اشیاء تووہاں سے لیتا آئوں۔ باغ کے دروازے پر آئے، اند رسے بچوں کی آوازیں سنائی دیں، بیوی گھریلو کام کاج میںمصروف ہے، بچے کھیل رہے ہیں۔خیال آیا کہ اندر جاکر بیوی کو خبر سنائوں مگر پھر دروازے ہی پر رک گئے۔ آواز دی! ام دحداح ! ام د حداح کو بہت تعجب ہوا کہ آج ابو دحداح باغ سے باہر درواز ے پر کیوں رک گئے ہیں‘ اندر کیوں نہیں آتے؟ دوبارہ آواز آئی: حاضر ابودحداح! فرمایا: اس باغ سے بچو ں سمیت باہر نکل آؤ‘ میں نے اس کو فروخت کر دیا ہے۔ ام دحداحؓ نے کہا : آپ نے اس کو بیچ دیا ہے۔ کس کو فروخت کیا ہے‘ کون خریدار ہے‘ کتنے میں؟ فرمایا: میں نے اس کو جنت میں ایک کھجور کے بدلے میں فروخت کردیا ہے۔
ام دحداحؓ نے کہا: اللہ اکبر! آپ نے بڑا ہی منافع بخش سودا کیا ہے، اب باغ میں داخل نہ ہونا۔ بڑا ہی فائدہ مند سودا ہوا ہے‘ جنت میں ایک درخت‘ جس کے نیچے گھڑسوار70 برس چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ ام دحداحؓ نے بچوں کو پکڑا ‘ ان کی جیبوں کو ٹٹولا‘ جو کچھ ان میں تھا ان کو نکالا ‘ کہا کہ اب یہ رب کا ہوگیا ہے ہمارا نہیںاور خالی ہاتھ باغ سے باہر نکل آئیں۔ ابودحداح اور ام دحداح رضی اللہ عنہم کا یہ قدم‘ یہ کارنامہ کوئی معمولی نہیں‘ اللہ کے رسول کے حکم کو پورا کرنے کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز کو رب کی راہ میں لٹا دیا۔ اپنے آباد گھر‘ باغ‘ کنویں کو چھوڑا اور ہمارے لیے مثالیں قائم کرگئے کہ اس کو کہتے ہیں حقیقی محب، محب ِصادق اللہ کے رسول سے محبت کرنے والے۔
ابو دحداح اور ام دحداح !تم دونوں میاں بیوی پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ہو، تم نے کتنی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا ‘ بلا شبہ تمہارا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ آئیے ایک اور منظر دیکھتے ہیں: بیگم! افطاری کے انتظام میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔ میں نے آموں کی پیٹی بمشکل نیچے رکھ کر پھولی سانس سے صوفے کی طرف لپکتے ہوئے کہا۔ ہاں ہاں آپ فکر نہ کریں، سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ فاطمہ نے بڑے اعتماد سے جوا ب دیا۔اس نے دودھ میں روح افزاء کی بوتل انڈیلتے ہوئے کہا: چکن بریانی، مٹن کڑاہی، بیف ، شوارمہ، کباب، زردہ، نہاری، پکوڑے، سموسے، ملک شیک سب تیار ہو چکے ہیں ۔ کھجوریں بھی منگوا لی ہیں۔ بس فروٹ کاٹنے والا رہتا ہے۔ آپ ذرا مدد کردیں، ٹائم تھوڑا ہے۔میں نے فروٹ کاٹنا شروع کر دیا۔افطاری کا انتظام مکمل ہوا اور ہم نے صحن میں سجے ڈائننگز پر لگادی۔ دوستوں اور رشتہ داروں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔افطاری کے ٹائم تک سب پہنچ چکے تھے۔افطاری کا وقت ہوتے ہی سب نے افطاری کی اور خوش گپیاں کرتے ہوئے کھانا کھانے لگے۔سب لوگ لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔فراغت کے بعد سب کہہ رہے تھے: جزاک اللہ خیر ، بہت مزاآیا۔ میں ہاتھ دھونے کے لیے بیسن پر گیا۔ بیسن کی نل کھولی تو ساتھ ہی میرے کان میں ایک بچی کی آواز آئی: امی اتنی دیر ہو گئی ہے، ہم نے ابھی تک روزہ بھی افطار نہیں کیا، سحری بھی صرف پانی سے کی تھی۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
یہ آواز پڑوس میں رہنے والی یتیم بچی کی تھی جس کی 12بارہ سال تھی۔میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اخلاقیات کے خلاف ہے ،دیوار سے ان کے گھر جھانکنے پر مجبور ہو گیا۔دیکھا کہ وہ بچی اپنی ماں کے سر پہ کھڑی تھی اور اس کی ماں چارپائی پہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔ماں بیٹی سے نظریں نہیں ملا رہی تھی اور باقی بچے اپنی بڑی بہن کا سوال سن کر ماں کے جواب کے منتظر تھے۔ بچی بار بار کھانے کا مطالبہ کررہی تھی ۔ میں یہ دیکھ کر جیسے پتھر کا ہو گیا۔ اس کی ماں نے سر اٹھایا تو مجھ پر نظر پڑگئی۔ اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ مجھ پہ نظر پڑتے ہی زبردستی مسکرائی اور چادر سے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی: بھائی! کیسے ہیں آپ؟ یہ لڑکی بہت ضدی ہے۔ ابھی سب نے کھایا ہے پھر بھی یہ ضد کررہی ہے۔وہ جھوٹ بول رہی تھی شاید جانتی تھی کہ میں نے بچی کی باتیں سن لی ہیں۔ میںسوچ رہا تھا کہ افطاری کرتے وقت جو سب لوگ باربار کھانے کی تعریف کررہے تھے اور سب ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ بھائی! کم کھاؤ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب جب ان یتیم بچوں نے سنا ہوگا تو ان پر کیا بیتی ہوگی۔کس وقت میری اہلیہ میرے پہلو میں آکھڑی ہوئی، مجھے کچھ پتہ نہیں چلا۔میں نے خود کو متحرک کیا اور بجلی کی سی تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔
ارے ارے کہاں جارہے ہیں؟ کیا ہوا، خیریت تو ہے نا آرام سے جائیں، آخر ہوا کیا ہے ؟ فاطمہ سوال پہ سوال کررہی تھی ۔ میں کسی سوال کاجواب دیے بغیر بازار کی طرف بڑھا۔ وہاں سے ہر وہ چیز جو میں نے افطاری میں کھائی تھی خرید کر واپس چل دیا۔ ہر قدم مجھے بھاری لگ رہا تھا۔ اس بچی کی باتیں اور اس خاتون کے آنسو مجھے بھول نہیں رہے تھے۔میں نے جلدی جلدی دروازے پر آکر دستک دی تواسی بچی نے دروازہ کھولا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کی آبدیدہ آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ وہ واپس مڑی اور شور مچانے لگی کہ دیکھو جاوید انکل کیا لائے ہیں ۔ سب بچے میری طرف لپکے اور میں نے سارا سامان ایک طرف رکھ کر سب کو باری باری سینے سے لگایا۔یہ سب دیکھ کر ان کی ماں کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ بلک بلک کر رونے لگی۔میں بھی اپنے آنسو روک نہ پایا۔
بچوں کاشور سن کر فاطمہ بھی دیوار پر آگئی ۔ وہ بھی اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔میں نے سامان کھولا، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں کھانا کھلایا۔ہر لقمے کے ساتھ بچے مسکرا کر شکر گزار نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔میں نے کہا: تم سب لوگ آرام کرو اور امی سے بھی کہو کھانا کھا لیں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ میں وہاں سے چلااور مارکیٹ میں آکر مہینے بھر کا راشن لیااور دوبارہ ان کے گھر آیا۔ ان کی ماں نظریں جھکاکرکہنے لگی: بھائی اتنی زحمت کیوں اٹھائی آپ نے؟میں نے کہا: آپ میر ی بہن ہو، زحمت والی کوئی بات نہیں۔ اس نے کہا: بھائی! اللہ آپ کو کسی کا محتاج نہ کرے۔یہ دعا سن کر مجھے یوں لگا جیسے میں نے دنیا وآخرت کی دولت پالی ہو۔اتنا سکون مجھے زندگی میں پہلی بارملا تھا۔گھر پہنچ کر سجدہ شکر ادا کیااور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر معافی مانگی جو میں اب تک ان کے حال سے غافل تھا۔ دوستوں اور رشتہ داروں کو پر تکلف افطاری پر ضرور بلائیں مگر اپنے آس پاس ان محروم و بے سہارا لوگوں کا خیال رکھنابھی نہایت ضروری ہے۔انہیں مت بھولیں۔

شیئر: