Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لڑ کر جوتے پہننے کی اجازت لوں گا‘ عثمان خواجہ کا ردعمل

عثمان خواجہ نے اپنے بیٹنگ سپائکس پر ’تمام زندگیاں برابر ہیں‘ اور ’آزادی ایک انسانی حق ہے‘ کے الفاظ لکھے تھے (فوٹو: مارک گوتلیب ایکس)
آسٹریلوی بیٹر عثمان خواجہ نے کرکٹ پریکٹس کے دوران اپنے جوتوں پر درج نعروں پر ردعمل دیا ہے۔
عثمان خواجہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا، لیکن جو لوگ میرے اس عمل سے ناراض ہوئے میں ان سے کچھ سوال کرتا ہوں کہ کیا آزادی سب کے لیے نہیں ہے؟ کیا تمام جانیں برابر نہیں ہیں؟
عثمان خواجہ نے کہا کہ مجھے فرق نہیں پڑتا آپ کس رنگ، نسل، ثقافت اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے جوتوں پر لکھا کہ سب زندگیاں برابر ہیں، اگر میرے اتنا کہنے سے کچھ لوگ ناراض ہو جائیں گے کہ مجھے کالز پر ایسا نہ کرنے کی تلقین کریں، کیا یہ بڑا مسئلہ نہیں؟ میں نے اپنے جوتے پر جو لکھا وہ غیر سیاسی ہے، میرے لیے ایک مسلمان، ایک یہودی اور ایک ہندو سب کی جانیں برابر ہیں۔
عثمان خواجہ کا کہنا تھا کہ میں کسی کی طرف نہیں ہوں، میں ان کی آواز بن رہا ہوں جو خود نہیں بول سکتے، یہ میرے دل کے قریب ہے۔ جب میں ہزاروں معصوم بچوں کو مرتا دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بچے نظر آتے ہیں۔ جب میں دنیا کو ان سے پیٹھ پھیرتا دیکھتا ہوں میرا دل اس کو تسلیم نہیں کرپاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی اپنی مرضی سے ایسی جگہ پیدا نہیں ہوتا، آئی سی سی نے مجھے کہا ہے آپ وہ جوتے نہیں پہن سکتے کیوںکہ ان پر سیاسی تحریر درج ہے، مجھے نہیں لگتا یہ سیاسی ہے یہ ایک انسانی اپیل ہے۔
کرکٹر نے مزید کہا کہ میں آئی سی سی قوانین کی عزت کرتا ہوں لیکن میں لڑ کر جوتے پہننے کی اجازت لوں گا۔
خواجہ نے منگل کو ٹریننگ کے دوران اپنی بیٹنگ سپائکس پر ’تمام زندگیاں برابر ہیں‘ اور ’آزادی ایک انسانی حق ہے‘ کے الفاظ لکھے تھے۔
اس سے قبل آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے تصدیق کی تھی کہ اوپنر عثمان خواجہ پاکستان کے خلاف پرتھ میں جمعرات سے شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں آئی سی سی کے ضوابط کی وجہ سے اپنے جوتے پر کوئی تحریری پیغام نہیں لکھیں گے۔

انیکا ویلز نے کہا کہ ’عثمان خواجہ ایک عظیم ایتھلیٹ اور ایک عظیم آسٹریلوی ہیں۔‘ (فوٹو: کرک انفو)

ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق فوٹوگرافرز اور میڈیا کی نظر میں آنے سے پہلے خواجہ نے اپنی ٹیم اور کرکٹ آسٹریلیا کو ٹریننگ سے پہلے اپنے جوتوں پر لکھے گئے پیغامات کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
عثمان خواجہ نے حالیہ ہفتوں میں غزہ کی جنگ کے حوالے سے مسلسل یہی پیغامات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات پوسٹ کرنے والے کھلاڑیوں کے حوالے سے آئی سی سی کے کوئی اصول نہیں ہیں۔ اس سے قبل پاکستان کے وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کو بھی ون ڈے ورلڈ کپ کے دوران غزہ میں تنازعے کے بارے میں ان کی سماجی پوسٹ کے بعد آئی سی سی سے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
بین الاقوامی میچوں کے دوران لباس پر لکھے جانے والے الفاظ یا لوگوز کے بارے میں آئی سی سی کے سخت ضابطے ہیں۔ انگلینڈ کے آل راؤنڈر معین علی کو آئی سی سی نے 2014 میں ایک ٹیسٹ میچ کے دوران ’غزہ کو بچاؤ‘ اور ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعروں پر مبنی پٹیاں اتارنے کو کہا تھا۔
کرکٹ آسٹریلیا نے بدھ کی صبح ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’ہم اپنے کھلاڑیوں کے ذاتی رائے کے اظہار کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن آئی سی سی کے ایسے قوانین موجود ہیں جو ذاتی پیغامات کی نمائش پر پابندی لگاتے ہیں جس پر ہم توقع کرتے ہیں کہ کھلاڑی ان قوانین کی خلاف ورزی نہیں کریں گے‘۔
آسٹریلوی ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز نے بھی تصدیق کی کہ انہوں نے خواجہ سے بات کی تھی، جس پرخواجہ نے انہیں بتایا کہ وہ ٹیسٹ میچ کے دوران اپنے جوتے پر بیانات نہیں لکھیں گے۔
کمنز نے مزید کہا کہ ’اس واقعہ نے آئی سی سی کے قوانین کی طرف توجہ مبذول کروائی جس کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ عثمان پہلے سے یہ جانتا تھا یا نہیں۔ اوُزی (عثمان) زیادہ ہنگامہ برپا نہیں کرنا چاہتا۔ میرے خیال میں ان کے جوتے پر لکھے الفاظ تفرقہ انگیز نہیں ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو اس بارے میں زیادہ شکایات ہو سکتی ہیں۔
کمنز کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ ہماری ٹیم میں سب سے مضبوط نکات میں سے ایک ہے کہ ہر ایک کے اپنے جذبات اور انفرادی خیالات ہوتے ہیں اور میں نے آج ان کے بارے میں عثمان سے مختصر گفتگو بھی کی۔ مجھے نہیں لگتا کہ عثمان کا ارادہ ہنگامہ آرائی کرنا ہے، لیکن ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جوتوں پر کیا لکھا تھا، 'تمام زندگیاں برابر ہیں'، میں اس کی حمایت کرتا ہوں‘۔
آئی سی سی کے ضوابط اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ کھلاڑی کیا پہن سکتے ہیں اور کیا نہیں پہن سکتے اور یہ قانون 68 صفحات پر مشتمل دستاویز میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ کھلاڑیوں کو اپنے لباس یا کٹس پر پیغامات ڈسپلے کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ ان کے بورڈ یا آئی سی سی کی طرف سے پیشگی منظوری نہ دی جائے۔ دستاویز میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سیاسی وجوہات کے لیے پیغامات ’نہیں دیے جائیں گے۔‘
آئی سی سی تسلیم کرتا ہے کہ گیم کو ’دنیا بھر کے لوگوں اور کمیونٹیز کو اکٹھا کرنے‘ کے لیے ایک ٹوُل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ’ممکنہ طور پر تقسیم کرنے والے سیاسی مسائل، بیان بازی یا ایجنڈوں کی طرف توجہ مبذول کرنے کے پلیٹ فارم کے طور پر نہیں۔‘
دوسری جانب یہ واقعہ آسٹریلوی حکومت کی طرف سے تبصرے کا سبب بھی بنا جب وفاقی وزیر کھیل انیکا ویلز نے عثمان خواجہ کی حمایت میں بیان دیا۔ انہوں نے بدھ کی صبح پرتھ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’وفاقی وزیر کھیل کے طور پر، میں نے ہمیشہ کھلاڑیوں کو آواز اٹھانے اور ان کے لیے اہم معاملات پر بات کرنے کا حق حاصل کرنے کی وکالت کی ہے۔‘
انیکا ویلز نے مزید کہا کہ ’عثمان خواجہ ایک عظیم ایتھلیٹ اور ایک عظیم آسٹریلوی ہیں، انہیں ان معاملات پر بات کرنے کا پورا حق ہے جو ان کے لیے اہم ہیں۔ میرے خیال میں انہوں نے پنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے احترام کا مظاہرہ کیا۔‘

شیئر: