Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہر کا اپنی والدہ کو ’وقت‘ اور ’پیسے‘ دینا گھریلو تشدد نہیں ہے، ممبئی سیشن کورٹ

ایڈیشنل سیشن جج آشیش ایاچِیت نے نہ صرف کیس خارج کر دیا ببلکہ الزامات کو بے معنی اور بے مقصد بھی کہا (فائل فوٹو: فری پِک)
ممبئی کی سیشن کورٹ نے ایک خاتون کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کو یہ فیصلہ سناتے ہوئے خارج کر دیا ہے کہ شوہر اگر اپنی والدہ کو ’وقت‘ اور ’پیسے‘ دیتا ہے تو یہ گھریلو تشدد کے زمرے میں نہیں آتا۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق ایک خاتون کی جانب سے ممبئی کی سیشن کورٹ میں اپنے شوہر اور سسرال پر کیس دائر کیا گیا کہ شوہر اپنا وقت اور پیسے اپنی والدہ کو دیتا ہے۔
اس کیس کو ایڈیشنل سیشن جج آشیش ایاچِیت نے نہ صرف خارج کر دیا بلکہ فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ خاتون کی جانب سے اپنے سسرال اور شوہر پر لگائے جانے والے الزامات نہ صرف بے معنی اور بے مقصد ہیں بلکہ اِن کا گھریلو تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیس دائر کرنے والی خاتون سٹیٹ سیکریٹیریٹ میں اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت کرتی ہیں۔
انہوں نے اس سے قبل مجسٹریٹ کورٹ میں ’پروٹیکشن آف ویمن فرام ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ‘ کے تحت اپنی حفاظت، خرچہ اور ہرجانہ نہ ملنے کے خلاف درخواست درج کروائی تھی۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اُن کے شوہر نے دھوکہ دیتے ہوئے اپنی والدہ کی ذہنی بیماری چھپائی۔
صرف یہ ہی نہیں، خاتون کی جانب سے اپنے سسرال پر الزام لگایا گیا کہ اُن کی ساس نے ملازمت کرنے کی مخالفت کی بلکہ انہیں ہراسیت اور لڑائی جھگڑے کا بھی نشانہ بنایا۔
خاتون نے مزید کہا کہ اُن کے شوہر 1993 سے 2004 تک بیرون ملک رہے اور وہ جب بھی انڈیا آتے تو صرف اپنی والدہ کو ملنے جاتے اور سالانہ 10 ہزار روپے بھی دیتے۔
دوسری جانب شوہر نے اپنی اہلیہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی اہلیہ نے کبھی انہیں اپنا شوہر مانا ہی نہیں اور وہ ہمیشہ سے اُن کے اوپر جھوٹے الزامات لگاتی رہی ہیں۔
شوہر نے مزید بتایا کہ اہلیہ کے لڑائی جھگڑوں کے باعث انہوں نے فیملی کورٹ میں طلاق کی پیٹیشن بھی دائر کی تھی۔
شوہر کی جانب سے اپنی اہلیہ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اُس نے بغیر اجازت کے اپنے شوہر کے اکاؤنٹ سے 21 لاکھ 68 ہزار انڈین روپے نکلوائے اور پھر اُن پیسوں سے فلیٹ خریدا۔
اُدھر عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ریکارڈ کے مطابق خاتون بطور اسسٹنٹ کام کرتی ہیں اور اُس کی تنخواہ لیتی ہیں۔ تمام ثبوتوں کو سامنے رکھ کر دیکھا گیا ہے کہ اُن کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے شوہر اپنا وقت اور پیسہ اپنی والدہ کو دے رہے ہیں جسے گھریلو تشدد میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔‘

شیئر: