Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوجوانوں کواخلاقی بدحالی کے سفر پردھکیلتے ٹی وی چینلز

 اخلاقیات کے فقدان کے باعث اولڈ ہومز آباد ہوتے جارہے ہیں
دردانہ پرویز۔ الخبر
جب بھی میں اپنی ماں اور بڑی بہنوں کے ساتھ فلم دیکھ کر گھر واپس آتی تو اس قدر متاثر ہوتی کہ بے اختیار ڈانس کی مشق کرنے لگتی اور گانے گنگنانے شروع کر دیتی۔ ایک مرتبہ تو حد ہوگئی کہ ہماری والدہ کے کزنز آئے ہوئے تھے ۔میں نے ان تمام باتوں سے بے خبر دور کھڑی گاگا کر ناچ رہی تھی۔ والدہ نے بہت صبر سے کام لیا اور ان کے جاتے ہی خوب اچھی طرح میری خبر لی۔ انہوں نے میری پٹائی بھی شروع کردی۔ 
یہ تمام باتیںٹی وی کی ایک معروف اداکارہ اپنے انٹرویو میں بیان کر رہی تھیں جو بلحاظ عمر انتہائی بزرگ تھیں۔ اداکارہ ہونے کے ناتے وہ بہت مزے لے لے کر اپنے ماضی کا احوال بیان کر رہی تھیں۔ انکی باتیں سن کر موجودہ نسل کی نوجوان اداکارائیں گویا ہوئیں کہ پھر آپ اتنی سختی کے باوجود کیونکر کام کر سکیں ؟ اس استفسار پر اداکارہ نے جواب دیا کہ پہلی بات تو یہ ہوئی کہ میری والدہ انتقال کر گئیں اوراس کے بعد میری شادی ہو گئی ۔ میرے شوہر نامدار نے مجھ پر سے ساری پابندیاں ہٹا لیں اور کہا کہ آپ کا جو دل چاہے کر گزرئیے۔ 
یقین جانئے،ہماری برسوں کی الجھن حل ہو گئی کہ ہم اکثر سوچتے تھے کہ اچھے خاصے، پڑھے لکھے مذہبی گھرانوں کی خواتین کس طرح اس زمانے میں میڈیا پر آنے لگی تھیں۔ اس وقت جب ٹی وی پر آنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وجہ یقینا آپ کی سمجھ میں بھی آگئی ہو گی۔ ورنہ ہم بتا دیتے ہیں :
آپ نے اساتذہ سے سنا ہوگا اور دینی کتب میں پڑھا ہو گاکہ ہمیں حکم فرمایاگیا ہے کہ ہم ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں۔ جب بھی کسی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تویہ بگاڑ چند دن میں نظر نہیں آتا بلکہ برسہا برس لگ جاتے ہیںاس کے سامنے آنے میں۔ ہمارے بچے اور بچیاں بلا شبہ معصوم ہوتے ہیں ۔ان کے اندر منافقت نہیں ہوتی ۔ کم عمری میں شعور پختہ نہیں ہوتا اس لئے وہ اچھے اور برے کے مفہوم سے بھی آگاہ نہیںہوتے۔ 
اگر آپ ایسے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں کہ جہاں ہر قسم کے پروگرام جو کہ معاشرتی، قومی اور سب سے بڑھ کر دینی سطح پر ناپسندیدہ اور گمراہی کی طرف لے جانے والے ہوں توایسے میں ہم اپنی نئی نسل کو صحیح خطوط کی جانب گامزن کرنے کی بجائے انہیں منافقوں والی روش پر لے جانے لگتے ہیں مثلاً ہم انہیں تفریح طبع کے لئے جو تفریحی ٹی وی چینلزدیکھنے کی اجازت دیتے ہیں، انہیں ہم اخلاقی معیار پر بالکل بھی نہیں پرکھتے ۔ اس امر کے ثبوت ہمارے سامنے آچکے ہیں اور مزید آ رہے ہیں۔ 
ہم صوم و صلوٰة کے بھی پابند نظرآتے ہیں۔ نفلی عبادتیں بھی ہمارا طرہ امتیاز بن چکی ہیں۔ گویا ہم نے اپنی روزمرہ زندگی اور اس کے لوازمات کو اختیار کرنے کے طریقے کلی طور پر ان لوگوں کے سپرد کر دیئے ہیں کہ جن کو خود اس بات کا قطعی شعور نہیںکہ آج وہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر نسل نوکوبگاڑ رہے ہیں۔ہمارے ہاں کے اکثر ٹی وی چینلزنوجوانوں کو اخلاقی ، معاشرتی اور نظریاتی بدحالی کے سفر پردھکیل رہے ہیں۔ 
جب تک ہمارے معاشرے دینی اور مشرقی تہذیب و تمدن سے اپنی نسلوں کی آبیاری کرتے رہے، وہ توازن کی روش پر قائم رہے اور جب نسلوں کی پرورش میں توازن کی روش ختم ہونا شروع ہوئی تو ہمارے معاشرے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر نے لگے۔ ہمیں آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل دینے کے لئے واپس پلٹنا ہوگا۔اس کے لئے چند اہم نکات پر غور ضرور کیجئے:
٭٭اپنی اولاد کو اسلاف کے بارے میں آگہی ضروردیں۔
٭٭اپنے بچوں کے لئے رول ماڈل چنیں تا کہ ان کی اخلاقی تربیت ہوسکے ۔ اخلاقیات کے فقدان کے باعث اولڈ ہومز آباد ہوتے جارہے ہیں۔
٭٭بچوں کوبڑوں کا ادب کرناسکھانا چاہئے اور ان کی نصیحتوں پر عمل کروانا چاہئے۔ بزرگوں کی صحبت میں اپنی اولاد کو لے کر ضرور جانا چاہئے۔
٭٭آپ اپنے اندر برداشت ا ور تحمل جیسی عمدہ صفات پیدا کریں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کا اثر آپ کے گھرانے پر نہ پڑے۔
اپنے بزرگوں کا ادب کریں، ان کی سرزنش کے انداز میں کہی ہوئی باتوں کو درگزر کرنا سیکھئے۔ بہرحال وہ ہر گز آپ کا برا نہیں چاہتے لہٰذا آپ کے مثبت رویے نہ صرف آپ کے لئے فائدہ مند ہوں گے بلکہ آپ کی اولاد کی منفی ذہنیت کو بدل ڈالیں گے۔ ایسا نہ ہوکہ آپ کے ساتھ بھی وہی معاملات شروع ہو جائیں کہ جس کی آبیاری آج آپ کر رہے ہیں کیونکہ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے۔ 
 

شیئر: