Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مردم شماری ہو تو مشکل نہ ہو تو مشکل

 
وسعت اللہ خان 
جنوبی ایشیائی ممالک کا جائزہ لیں تو مردم شماری کے معاملے میں سب ہی پاکستان سے بہتر ہیں
پاکستان میں جب تک کوئی بنیادی مسئلہ متنازعہ نہ ہو جائے زندگی کا لطف  نہیں آتا۔اب مردم شماری کے عمل کو ہی لے لیں۔وہی پاکستان ہے جہاں1951ء  ،61 ، 72 اور81 میں آرام سے مردم شماری ہوگئی۔لیکن پھر شکوک و شبہات اور بدنیتی و سستی کے ناگوں نے ڈسنا شروع کیا اور مردم شماری کا عمل بھی جو باقی دنیا میں ایک معمول کی ریاستی مشق ہے پاکستان میں ایک اور کالا باغ ڈیم  ہوگیا۔پھر بھی 1998ء  کی مردم شماری کے نتائج قبول کر لئے گئے۔عجب تماشا ہے کہ جب بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا تب آبادی زیادہ ہونے کے باوجود مردم شماری میں کوئی دقت نہیں ہوئی مگر جب آبادی آدھی رہ گئی تو شک دگنا ہوگیا۔
یقیناً  مردم شماری کے عمل کو داغدار بنانے کے لئے کئی ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔بلکہ پہلی مردم شماری کے بعد جتنی بھی شماریاتی مشقیں ہوئیں ان میں کوئی بھی100 فیصد شفاف نہیں تھی۔جس کا جہاں بس چلا اس نے جھرلو پھیرنے کی کوشش کی۔مگر پاکستان میں تو سوائے 70کے الیکشن کے آگے پیچھے جتنے بھی انتخابات ہوئے ان پر بھی سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔تو کیا انتخابی عمل ہی روک دیا جائے ؟ 
دنیا میں مردم شماری کوئی آج سے تھوڑا ہو رہی ہے کہ انہونی ہو۔پہلی مردم شماری فراعنہِ مصر نے3340 ق م میں کروائی تھی۔ اسرائیلیوں نے حضرت موسی علیہہ سلام کی قیادت میں مصر سے کنعان کی جانب ہجرت سے پہلے اپنے تمام مردوں ، عورتوں اور بچوں کی گنتی کی۔ یونانیوں نے1600 ق م سے خود کو گننا شروع کیا۔
ہندوستان میں پہلی مردم شماری چندر گپت موریا کے دور میں 300ق م کے لگ بھگ ہوئی اور نہ صرف انسانوں بلکہ پالتو جانوروں کی بھی گنتی ہوئی۔سلطنتِ روم میں چھٹی صدی قبلِ مسیح میں تولیسس کے دور میں پہلی باقاعدہ مردم شماری ہوئی تاکہ تمام طبقات کی گنتی کرکے ان کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جا سکے۔
چینیوں نے ہان خاندان کے دور میں دو قبلِ مسیح میں پہلی مردم شماری کی جس کا باقاعدہ  دستاویزی ریکارڈ مرتب کیا گیا۔وسطی امریکہ کی انکا سلطنت میں شہریوں اور غیروں کا  ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔بعد از اسلام پہلی مردم شماری خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ و تعالی عنہہ کے دور میں ان تمام علاقوں میں ہوئی جو فتح ہو چکے تھے۔بعد ازاں امویوں اور عباسیوں نے اس عمل کو جاری رکھا۔
اگر دورِ جدید دیکھا جائے تو ڈنمارک میں 1701ء اور آئس لینڈ میں 1703ء  میں مردم شماری ہوئی۔اس کے بعد دیگر یورپی سلطنتوں نے اسے اپنی داخلہ پالیسی کا باقاعدہ جزو بنا لیا۔آج دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر 10 برس بعد مردم شماری ہوتی ہے۔اقوامِ متحدہ بھی یہی سفارش کرتا ہے۔مگر بعض ممالک مردم شماری کے اتنے شوقین ہیں کہ ہر 5 برس بعد ہی بندے گن لیتے ہیں۔جیسے آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور جاپان وغیرہ۔
کئی ممالک میں مردم شماری میں لمبے لمبے وقفے بھی آئے  لیکن ان کی ٹھوس وجوہ ہیں۔مثلاً لبنان1932ء میں وجود میں آیا اور وہاں مردم شماری بھی ہوئی مگر پھر نہ ہو سکی کیونکہ ملک کی نسلی و مذہبی ہئیت اس قدر آتش فشانی ہے کہ بغیر مردم شماری بھی دو خونریز خانہ جنگیاں ہو چکی ہیں۔1932ء  کی مردم شماری کی بنیاد پر لبنان میں توازنِ طاقت کچھ یوں قائم ہوا کہ صدر مسیحی ، وزیرِ اعظم سنی مسلمان اور اسپیکر شیعہ مسلمان ہوگا۔سب ہی کو خدشہ ہے کہ اگر نئی مردم شماری میں فرقوں کی آبادی کا تناسب بدل گیا تو ایک اور خانہ جنگی ہو سکتی ہے لہذا تینوں فرقوں میں ایک غیر اعلانیہ انڈر اسٹینڈنگ ہے کہ معاملات کو بس چلنے دو۔
انگولا میں1977ء کے بعد2014ء  میں مردم شماری ہوئی۔کیونکہ70 کے وسط میں پرتگال سے آزادی کے بعد انگولا طویل خانہ جنگی میں پھنس گیا اور پچھلے10 برس میں ہی وہاں ایک مرکزی حکومت کی گرفت مضبوط ہو پائی ہے اور بیرونِ ملک بھاگنے والے پناہ گزیں بھی واپس آگئے ہیں۔افغانستان میں 1982ء  کے بعد سے آج تک مردم شماری نہیں ہو سکی۔وجوہ  آپ جانتے ہیں۔
اگر ہم جنوبی ایشیائی ممالک کا جائزہ لیں تو مردم شماری کے معاملے میں سب ہی پاکستان سے بہتر ہیں۔مثلاً  ہند میں1881ء کے بعد سے آج تک ہر10 برس بعد مردم شماری ہو رہی ہے۔بنگلہ دیش میں پہلی مردم شماری 1974ء میں اور دوسری 7 برس بعد1981ء میں اور اس کے بعد سے ہر10 برس بعد ہو رہی ہے۔آخری مشق2011ء  میں ہوئی۔نیپال میں طویل مسلح کمیونسٹ شورش اور سری لنگا میں چوتھائی صدی تک جاری رہنے والی تامل سنہالہ خانہ جنگی کے باوجود مردم شماری کا عمل نہیں رکا۔
اب آئیے پاکستان کی طرف جہاں1981ء تک تو ہر 10 برس بعد مردم شماری ہوتی رہی لیکن پھر1991ء کے بجائے17 برس کے وقفے سے 1998ء میں ہوئی۔اس کے بعد2008 ء  میں ہونی تھی جو سستی اور سیاسی نیت کے سبب نہ ہو پائی۔جواز بنایا گیا کہ دھشت گردی کے سبب حالات سازگار نہیں۔
اب جبکہ خدا خدا کر کے مردم شماری کا عمل مکمل ہو چکا ہے تو اس کے نتائج پر تنقید ہو رہی ہے کہ فلاں علاقے کی آبادی کیوں گھٹ گئی فلاں کی کیوں اتنی بڑھ گئی۔
اقبال نے کہا تھا 
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال کے پاکستان میں تولنا تو درکنار بندے گننا بھی محال ہے۔
کیا2018ء کے انتخابات بھی1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے ؟الیکشن کمیشن تو کرانا چاہتا ہے مگر کیا باقی ادارے اور سرکار اور سیاسی جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں ؟ گر آبادی کو فرض ہی کرنا ہے تو انتخابی نتائج بھی فرض کر لیں تاکہ چار پیسے اسی بہانے بچ جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں