Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین کی تربیت ہی بہترین معاشرے کی بنیاد ہے، غوثیہ سبین خان

علم اور مال کی صورت میں ملنے والا رزق اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جسے لوگوں میں تقسیم کرنا چاہئے
زینت شکیل
کائنات اور حیات ایک ورق کے دو صفحے ہیں یہ دونوں دوست بھی ہیں اور دو دشمن بھی ’ساتھی اور فریق بھی ’یہ ایک دوسرے کے شریک کار بھی ہیں اور ایک دوسریسے برسر پیکار بھی
یہ بگڑتے بھی ہیں اور بنتے بھی ہیں
اردو زبان ایک نامیاتی حقیقت ہے
انسان وہی کچھہ ہوتا ہے جو اسکی سوچ ہوتی ہے
ہوا کے دوش پر اس ہفتے ہماری ملاقات ایسی ہستی سے ہوئی جو اپنے والد جہانگیر احمد خان اور والدہ محترمہ صبیحہ کے گھر ایک چمکتا ستارہ بن کر آئیں چونکہ والد صاحب خود آئی ٹی آئی کے پرنسپل تھے اور گھر پر تعلیمی ماحول ملا اور اس ادبی ماحول نے انکی صاحبزادی محترمہ غوثیہ خان سبین اردو کی اساتذہ بنیں اور ایک ایسے پلیٹ فارم سے عورتوں کے لیے آواز بن گئی جس کی ضرورت ہر علاقے میں ہر وقت رہتی ہے ۔ محترمہ غوثیہ خان کا کہنا ہے کہ انسان وہی ہوتا ہے جو اسکی سوچ ہوتی ہے اور جس مفکر نے یہ کہا ہے بالکل صحیح کہا ہے جب انسان غور وفکر کرتا ہے تب ہی بہترین فیصلے کرسکتا ہے اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے۔ غوثیہ نے مہارانی لکشمی بائی کالج سے گریجویشن ’ ایم اے ’فا ئن آرٹ’ ایم اے اردو لٹریچراور ایم اے فارسی کیا ہے آپ نے ڈپلومہ اور بی ایڈ بھی کیا ہے آپ ای ٹی وی ایم پی میں 3 سال سے اردو ڈاکیو منٹری..... ’ ادھورے خواب’’ کو اپنی آواز دیتی آرہی ہیں انکا کہنا ہے کہ انسان میں بہت صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اور اس کو اجاگر کرنا خود انسان کی محنت پر اور قسمت پر بھی منحصر ہوتا ہے اگر کوئی ایک زبان سیکھ سکتا ہے تو دوسری زبان بھی سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کوشش کرنا اور بڑھنا چاہیے انہوں نے اپنی کامیابیوں میں ان خواتین کی دعاؤں کا بھی ایک بڑا حصہ بتایا جو ان کو اپنی آواز سمجھتی ہیں غوثیہ خان کا کہنا ہے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے سایبان کی مانند ہوتے ہیں ان کے سایہ شفقت میں شاعرانہ ذوق کی آبیاری ہوتی رہی انکی اصلاح اور مشوروں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی ان کی ذات میرے لیے روشن مینار کی طرح ہیں وہ سر تا پا شفقت اور خلوص کا پیکر ہیں غزل شاعری کی سب سے مقبول صنف ہے ہماری تہذیب و تمدن اور ہماری اجتماعی زندگی کی جھلک ادب اور تاریخ میں ملتی ہے آپ ریڈیو آزاد پر اسپیشل پروگرام کے تحت اردو کے ایپی سوڈ پیش کرتی ہیں اور آج تک55 ممتاز ہستیوں بشمول کئی ملکی اور بیرون ممالک کے ادباء اور شعرا ء کے کامیاب انٹرویوز کرچکی ہیں- آپ آل انڈیا ریڈیو میں اناؤنسر بھی ہیں آپ کی کتاب ’’بھوپال گوہر محل’’ کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اس کا جدید ایڈیشن بھی منظر عام پر آنے والا ہے آپ نے 400 سے زائد غزلیں کہی ہیں اور بے شمار نظموں ’ افسانوں مضامین میں بھی طبع آزمائی کر چکی ہیں جو بھوپال کے جریدوں اور اخباروں میں چھپ چکے ہیں بھوپال سے شائع ہونے والے اخبار ’’باب ادب ’’ میں سب ایڈیٹر کا فریضہ انجام دے رہی ہیں آپ بی ایس ایس کالج میں بی ایڈ ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ لیکچرر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ آج کی تعلیم کوہم نے زیادہ تر ہندسوں کے ہیر پھیر’خدمات کی قیمت وصول کرنے اور نوکری حاصل کرنے کا وسیلہ سمجھنے لگے ہیں حالانکہ ایک صاحب علم کے نادر خیال میں ’’انسان کی حقیقی تاریخ قیمتوں اور اجرتوں میں نہیں ’نہ ہی انتخابات اور جنگوں حتیٰ کہ عام آدمی کے طور طریقوں میں بلکہ یہ مجموعی انسانی تہذیب وثقافت میں جینس لوگوں کے پائیدار حصہ داریوں میں مضمر ہے ’’ کئی زبانوں سے واقفیت ان کے ادبی نگارشات کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ بنے ہیں مختلف ممالک کے علم و فن سے آدمی بہت کچھہ سیکھتا ہے ادباء اور شعراء کسی بھی قوم کے سیاسی ’معاشی’ ادبی اور معاشرتی نظریات کا عکس ہوتے ہیں ۔ غوثیہ خان نے اپنے والد سے یہی سیکھا کہ ہمیشہ علم کے حصول میں منہمک رہنا چاہیے اس سے انسان متمدن بنتا ہے دوسروں کی بہتری کا کام بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے اور ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ جو رزق اپ کے پاس ہے آپ اسکو لوگوں میں بانٹیں۔چاہے وہ رزق علم کی صورت میں ہو یا مال کی صورت میں یا پھر شخصی قوت ہر ایک کو نعمت سمجھنا چاہیے اور نعمت لوگوں میں تقسیم کریں تو اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے یہی برکت ہوتی ہے ۔ اپنی والدہ سے یہی سیکھا کہ دوسروں کے کام آؤ بھوپال کی تہذیب کو بیحد پسند کرتی ہیں اور تمام عورتوں کی سماجی رتبے میں بہتری کے لئے کوشش کرتے رہنے کو انکی مستقل مزاجی کہا جا سکتا ہے۔ انہیں وہ تمام غزل اور نظم پسند ہیں جسمیں غوثیہ خان نے خوتین کے لیے لکھا ہے ۔ جیسا کہ یہ غزل خیالات واضح نہ حالات واضح ہے اپنی تو لے دے کے ہر بات واضح تلاش قمر میں نکل تو گئے ہیں ہوئے ہیں فلک پر نشانات واضح خدارا دکھا دے کبھی تو ہمیں بھی تصور میں ہو جائے ہر بات واضح کہاں تک نگاہیں بچائیں گے اس سے ہوئے ہیں قیامت کے اثرات واضح تخیل مبارک تصور سلامت سبیں کے ہوئے سارے خدشات واضح اردو ایک ایسی زبان ہے جسمیں ہر زبان کا لفظ موجود ہے اور یہی اس زبان کا مزاج ہے اسکی پہجان ہے جنہوں نے اردو زبان میں شاعری کی ان میں اکثریت کے انداز فکر میں گھری یکسانیت ہے اور پاکیزہ زندگی اور بقائے انسانیت کے لیے ان سب کے ایک ہی مقاصد ہیں کامل دھرم پوری مظفرآباد نے کوئی نئی راہ نہیں نکالی مگر پرانی راہ پر بھی طرز رفتار میں انفرادیت کا لحاظ رکھا ۔ براق کی تعریف میں مضمون آفرینی کی مثال ملاحضہ ہو بے مثل تھا اور سرعت رفتار میں تھا فرد جبرئیل بھی رہ جاتے تھے پیچھے صف گرد جب تک کہ فلک تک ہو وصول نگہ مرد سو مرتبہ وہ عرش سے ہو آتا تھا بے درد غوثیہ خان سبین نے عورتوں کے حقوق پر آواز اٹھائی ہے اور انکی آواز دور دور تک پہنچ رہی ہے یہی انکی کا میا بی ہے کہ لوگ ان کے کہے پر توجہ دے رہے ہیں ۔ انکا یہی کہنا ہے جہاں انصاف ہو گا وہاں لوگ بہتر طور پر اپنی صلاحیتوں کو بارآور کر سکیں گے معاشرہ افراد کا مجموعی عکس پیش کرتا ہے انسانی زندگی اور معاشرت کا سارا حسن اور امن و سکون قانون کی پاسداری میں پوشیدہ ہے ۔ غوثیہ خان نے اس بات پر اصرار کیا کہ خواتین کی تربیت ہی دراصل بہترین معاشرہ کی بنیاد ہے کسی مفکر نے کہا ہے کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا’’ اس کی وجہ یہی ہے کہ ریاست کی نصف آبادی کے بھی مسائل حل کیے جائیں اور ملکی ترقی میں حصہ دار بنایا جائے خواتین دیہی علاقے میں رہتی ہوں یا شہری علاقے میں وہ ہر صورت میں معاشرہ میں اپنی اہمیت رکھتی ہیں اگر شہروں میں مردخواتین ملک کی اقتصادی ستون کا حصہ ہیں تو گاؤں ،دیہات کی عورت بھی اپنے روزمرہ کاموں کی انجام دہی میں مصروف عمل رہتی ہے اور یہ بہت اہم بات ہے جاننے والی کہ ہر ریاست کی بنیادی ترقی اس ملک کی زراعت میں ترقی ہے دنیا کی ہر ترقی اپنی اہمیت رکھتی ہے لیکن سوچنے بات یہ ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں گی وہ اس دنیا میں موجود ہوگا تو ہی جدید سہولیات سے مستفید ہو سکے گا ۔ قانون خواہ وہ ہو جو فطرت نے بنایاہے یا وہ کہ جسے سماج اور دین نے نافذ کیا ہو یا وہ جو حکومت نے وضع کیا ہو خود انسان کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے ۔ دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے لیکن اس ترقی کی قیمت ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں ادا کرنا پڑرہی ہے اب ہر ملک فضائی، بری اور بحری آلودگی کا مسائل پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہے لیکن ان تمام مساعی کی بھرپور کامیابی بہرحال اس امر سے مشروط ہے کہ عوام خود اپنی ذمہ داری کا احساس کریں ۔ شجر کاری کو شوق یا مشغلہ نہ سمجھیں بلکہ بطور فرض اپنائیں یہ کوشش ہمارے صاف ستھرے انوائرمینٹ کی ضمانت ہو گی۔ غوثیہ خان صبح پڑہانے میں اور شام ریڈیو میں کوئی پروگرام نشر کررہی ہوتی ہیں دن بھی میں زیادہ وقت مصروف رہتی ہیں اتنا کام کیسے منظم کرتی ہیں وہ خود اس بارے میں یہی کہتی ہیں کہ قدرت نے انسان کو بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے حقیقت یہ ہے کہ انسانی عقل و فہم کی دولت نے انسان کو معتبر بنایا ہے۔ زندگی ہر فرد کی انفرادی عقل و دانش کا امتحان لیتی ہے ۔ غوثیہ خان کا کہنا ہے کہ مال و دولت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن بلاشبہ وقت بہت بڑی دولت ہے اس کو اچھے طریق پر گزارنا چاہیے لیکن انسان کا مجموعی مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی بھر اس چیز کو پانے کی کوشش کرتا رہا جو اس کے پاس موجود نہیں لیکن جو نعمت اس کی زندگی میں موجود رہی اس سے وہ بیخبر رہا اور اس کی شکر گزاری بھی نہ کرسکا انکا کہناہے کہ معیار پسندی بہت اچھی بات ہے مگر جب معیار کا حصول ممکن نہ ہو تو بہترین طریقہ حقیقت پسندی ہے ۔ انہیں علامہ اقبال بھی پسند ہیں اور غالب بھی اور ان کا کلام آج بھی نئے زاویہ سے اپنے قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
********

شیئر: