Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واہ ری دو ستی،تو نے ڈاکہ بھی ڈالا تو کس پہ

 تسنیم امجد ۔ریا ض
فر حت اور نا زیہ کی دوستی مشہور تھی ۔انہیںاپنی دوستی پر ناز تھا ۔اتفاق سے ان کا بچپن بھی ایک ساتھ گزرا تھا ۔دو نو ں کے والد ایک ہی دفتر میں کام کرتے تھے لیکن نا زیہ کے والد نے نو کری چھو ڑ کر بز نس کر لیا ۔اس طرح اب ان کے گھر دور دور ہو گئے ور نہ پہلے ایک ہی کمپاﺅ نڈ میں تھیں ۔اس دوری سے انہیں ایک فا ئدہ یہ ہوا کہ اب وہ ایک دوسرے کے گھر جاتیں تو ایک آدھ روز کے لئے وہیں ٹھہر جاتیں۔ اکثر اپنا بیگ تیار کر کے وہ بابا سے اجازت چا ہتیں ۔اس پر وہ کہتے کہ تیاری تو کر لی ہے اب رو کو ں کیسے ؟ انہیں ہر ویک اینڈ عید لگتا تھا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے قصیدے پڑ ھتے نہیں تھکتی تھیں ۔
آ ج اچانک فر حت کا رونا دھو نا دیکھ کر ہم چو نک گئے ۔کہنے لگیں نا زیہ نے میرا بھرم تو ڑ دیا ۔وہ ایسے کہ جس گھر میں میری آ پی کا رشتہ طے ہو نا تھا، وہاں ہمیں اسی ہفتے جا نا تھا کیو نکہ لڑ کے والے آ چکے تھے ۔نازیہ کی فیملی کو بھی ہم نے اس خو شی کے مو قع پر مد عو کر رکھا تھا۔ ایک دن نا زیہ بتانے لگی کہ امی کو کچھ ایمبرا ئڈری والے کپڑے چا ہئیں تھے تو وہ اپنی ایک اور سہیلی کے ہمراہ ان کے گھر گئی تھیں ۔میں حیران ہو ئی کہ ان کے گھر یہ کپڑے تو نہیں ۔وہ بو لی ان کی سہیلی کو شا ید غلط فہمی ہو ئی تھی لیکن وہ میری امی سے بہت اچھی طرح ملیں، ان کی خوب خاطر مدارت کیں ۔امی تو بہت متا ثر ہو ئیں ان کے حسنِ سلوک سے ۔اب وہ بھی ہمارے ہا ں آ نے کا کہہ رہے ہیں۔
اُس وقت تو مجھے یہ سب کچھ خاص نہیں لگالیکن دو دن کے بعد لڑکے والوں نے نہ آ نے کی اطلاع دی اور کہا کہ ہمارے ہا ں کچھ مہمان آ رہے ہیںاس لئے پرو گرام ملتوی کر دیا گیا ہے ۔امی کو ان کا اس طرح کا رویہ کھٹکا۔وہ پریشان ہو گئیں لیکن ہم سب نے انہیں تسلی دی ۔
ادھر نا زیہ کا بھی یک دم آ نا بند ہو گیا ۔کو ئی نہ کو ئی بہانہ سننے کو ملتا ۔آ خر راز کھل ہی گیا؟ جب نا زیہ کے ہا ں سے شادی کا دعوت نامہ
مو صول ہوا۔نازیہ کی شادی اسی لڑ کے سے طے پائی تھی لیکن وہ تو آ پی کو بہت پسند کر گئے تھے اور نا زیہ تو کہتی تھی کہ اس نے ما سٹرز سے پہلے
شادی ہی نہیں کرنی پھر اس کی شادی ؟ مجھے یقین نہیںآ رہا تھا ۔کیا کرتے ۔رونا تو یہ تھا کہ آ پی کی بات چیت کے دوران نا زیہ کو میں ہر بات بتاتی تھی اور خوش تھی کہ ہماری آ پی کو اتنا اچھا گھر مل رہا ہے ۔مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کی امی کو یہ معلومات پہنچ رہی ہیں اور اس کی رال ٹپک رہی تھی ۔
واہ ری دو ستی،تو نے ڈاکہ بھی ڈالا تو کس پہ ۔نازیہ کے ابا کے کا روبار کی چمک انہیں زیادہ بھا ئی اور دو نو ں خا ندانو ں نے وفا کے تمام تقا ضوں کو با لائے طاق رکھ دیا ۔میرے والدین صرف یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ انہیں ایک نہ ایک دن اس حر کت پر ندامت ضرور ہو گی۔
سہیلیوں کی بے وفائی کا رونا اور تو ڑ جوڑ اکثر سننے کو ملتا ہے ۔یہ سچ ہی ہے کہ ”ہر ہاتھ ملانے اور ہر بات کرنے والا دوست نہیں ہوتا۔“
اس میں کو ئی شک نہیں کہ دوستی کا مفہوم بھی وسعت رکھتا ہے ۔یہ نام ہے خود کو کسی کے لئے وقف کر دینے کا ۔اس کی عزت و آ برو پہ مر مٹنے کا ۔خواتین فطرتاً دوستی کی زیادہ خوا ہا ں ہو تی ہیں ۔ایک وفا دار سہیلی ” دوا“ کا درجہ رکھتی ہے ۔یہ ایک قابلِ قدر رشتہ ہے جس کی بنیاد صرف خلوص پر ہے ۔ویسے بزرگو ں کا کہنا ہے کہ سہیلیو ں کا وسیع حلقہ رکھنا ضروری نہیں ۔ایک پر خلوص سہیلی بھی کا فی ہو تی ہے ۔آ ج کل موسمی دو ستیوں کا زمانہ ہے ۔کچھ خواتین حالاتِ حا ضرہ کی خبر رکھنے کے لئے مل بیٹھتی ہیں ۔کچھ کا رو باری دوستی رکھتی ہیں۔خریدو فرو خت کا اچھا ذریعہ یہی دوستیاںہیں ۔یہ سب زبانی دو ستیا ں کہلا تی ہیں ۔ایک کھانے پینے تک محدود ہو تی ہیں ۔ون ڈش کا لا متنا ہی سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اسے مر زا ظاہر دار بیگ کی دو ستی کہیں تو بجا ہو گا ۔شا عروں نے اس پر خوب اشعار کہے ہیں ،جیسے:
دشمنو ں نے جو دشمنی کی ہے 
دو ستو ں نے بھی کیا کمی کی ہے
٭٭٭
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جا ئیں
کیو ں نہ اے دوست ہم جدا ہو جا ئیں
آج کے دور میں تو زیادہ تر رتبہ یا مر تبہ دیکھ کر دوستی کی جا تی ہے کیو نکہ اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ” لوگ کیا کہیں گے۔“بڑے بڑے مضبوط تعلق ا سٹیٹس کی دوڑ میں ٹو ٹتے دیکھے ہیں۔رومن تاریخ بتاتی ہے کہ حکمران اپنے دو ستو ں سے بآ سانی را بطہ رکھنے کے لئے انہیں اونچے رتبے بخش دیتے تھے۔یہ تجربہ اکثر تکلیف دیتا تھا کیو نکہ دو ستوں کا بدلنا بھی آ سان تھا ۔کہاوت ہے کہ”تھوڑے میں زیادہ ڈلنا“ اس قسم کے نو دو لتئے لوگ دو ستی کے قابل نہیں ہو تے ۔یہ حقیقت ہے کہ خوش حالی دوست بنا تی ہے اور بد حالی دوستی آ ز ماتی ہے۔اسے مطلبی دو ستی کہا جا ئے تو بجا ہو گا ۔دو ستی ذہنی کیفیت اور دلی مسرت کا نام ہے ۔اس جذ باتی وا بستگی میںانسان خود کو مکمل سمجھتا ہے۔یہ ایک ایسا تحفہ ہے جوصرف دل میں رہتا ہے ۔
شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ زبانی دوست سے زبانی ہمدردی جتا کر ر خصت لے لو ۔رو ٹی والے دوست کو رو ٹی کھلا کر بھیج دو ۔سچے دوست کو اپنے ہا تھوں میں رکھو ۔اس کی خاطر جان بھی قربان کرنا پڑے تو گریز نہ کرو ۔یہ وہ لوگ ہیں جو موت کے بعد بھی آپ کی خوا ہشوں کا احترام کرتے ہیں ۔
 

شیئر: