Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عشر ، ایک شرعی فریضہ

  اگر زمین میں بانس یا گھاس آمدن کی غرض سے لگایا ہو تو اس میں عشر ہو گا، ادائیگی کا تعلق تخمینے سے نہیں بلکہ نصاب کے مطابق ہے
 مولانا محمد الیاس گھمن ـ ۔سرگودھا
    اللہ تعالیٰ نے جیسے انسان کو جسم عطا کیا اور اس سے متعلق کچھ احکام ذکر کئے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال دیا اس کے متعلق بھی احکام ذکرفرمائے ہیں۔اسی کے دئیے  ہوئے جسم اور مال کو اسی کے حکم کے مطابق استعمال کیا جائے تو اللہ راضی ہوتے ہیں، دنیا میں برکتیں نازل فرماتے ہیں اور آخرت میں جنت عطا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے :اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اُس نے تم کو عطا کیا ہے(النور33)۔
    دوسرے مقام پرارشادِ ربانی ہے :جو کچھ اللہ نے آپ کو دیا ہے اس کے ذریعہ آخرت کے گھر کو حاصل کرو(القصص 77)۔
    یہ سونا چاندی، کرنسی، دولت، مال مویشی،زمین، باغات، فصلیں،کھیت کھلیان وغیرہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، ان کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا عبادت ہے اور اس مالی عبادت کا نام زکوٰۃ ،صدقۃ الفطر ، قربانی اور عشر ہے۔
    ٭ نظام زکوٰۃ و عشر کی حکمت:اسلام کے اقتصادی نظام کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام دولت کو ایک جگہ منجمد نہیں رہنے دیتا بلکہ اس کو گردش میں رکھتا ہے تاکہ مال دار طبقہ مال کی کثرت و فراوانی کی وجہ سے غرور ، تکبر اور ظلم پر نہ اتر آئے۔ اسی طرح غریب بھی احساس کمتری کا شکار ہو کر مایوسی اور جرائم کا مرتکب نہ ہو ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ جہاں لوگوں کی معاشرتی ضروریات کو پورا کرتا ہے وہاں اسکا روحانی فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے کیونکہ مال کی بے جا محبت جب دل میں اترتی ہے تو انسان اپنے مقصد تخلیق سے یکسر غافل ہو جاتا ہے چنانچہ اسلام نے مال کے متعلق چند عبادات مقرر فرما دی ہیں تاکہ معاشرہ ظلم و ستم اور جرائم سے پاک وصاف رہے۔ اسلام کے اس اقتصادی نظام کا ایک جزو عشر بھی ہے۔ جس طرح سونے چاندی پر زکوٰۃ واجب ہے ا سی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ لازم ہے، اسی کا نام ’’عشر‘‘ہے۔ وطن عزیز میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فصلیں اور باغات پکنے کو ہیںاس لئے عشر کے متعلق کچھ احکام(وجوب ،مقدار، شرائط ،زکوٰۃاور عشر میں فرق، مصارف اور چند متفرق مسائل ) ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں۔
    ٭ عشر کا وجوب:قرآن مجیدمیں ہے:اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرواوراس (پیداوار) میں  سے (بھی )جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیداکی ہے( البقرۃ 267)۔دوسرے مقام پرارشادِ باری تعالیٰ ہے: اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹواور (اللہ کی مقرر کردہ )حد سے آگے نہ بڑھو اس لئے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا(الانعام141)۔
    مذکورہ بالا مکمل آیت کریمہ میں فصل ، باغات اور پھلوں کے جس حق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد عشر ہے۔
    ٭ 10ویں اور 20ویں حصے کی تقسیم:عشر کی ادائیگی میں پیداوار کے دسویں اور بیسویں حصہ کی تقسیم کا مدار پانی پر ہے، جس کی تفصیل حدیث پاک میں اس طرح سے ہے:
    حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشادفرمایا:جو کھیتی بارش کے پانی یاقدرتی چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا خود بخود سیراب ہو (مثلاً نہر وغیرہ کے کنارے پر واقع ہو جس کی وجہ سے پانی دینے میں محنت نہ کرنی پڑتی ہو اور نہ ہی پانی کا خرچ ادا کیا جاتا ہو ) تو اس میں سے عشر (دسواں حصہ)لیا جائے اور جس کھیتی میں کنویں(ٹیوب ویل ، رہٹ ، یا وہ نہری پانی جس کا آبیانہ ادا کیا جائے)سے پانی لیا جائے تو اس میں سے نصف عشر(بیسواں حصہ )لیا جائے۔‘‘(صحیح بخاری، باب العشرفیمایسقی من ماء  السمآ )۔
    حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ نے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ میں بحیثیت عامل اس پیداوار سے جو آسمان(کے پانی یعنی بارش)سے سیراب ہوئی اور جو زمین نہر کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے سیراب ہوئی (یعنی اسے خود سے پانی دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی)تو اس میں دسواں حصہ بطور عشر کے حاصل کروں اور جو زمین (کنوؤں کے)ڈولوں سے سیراب ہواس میں بطور عشر بیسواں حصہ وصول کروں (سنن ابن ماجہ باب صدقۃ الزروع والثمار )۔
    ٭ وجوب عشر کی شرائط:
    پہلی شرط:مسلمان ہوناہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عشر اہل ایمان کیلئے مقرر کردہ ایک عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں۔
    دو سری شرط:زمین کا عشری ہونا، خراجی زمین پر عشر نہیں۔
    فائدہ: خراجی زمین اسے کہتے ہیں کہ جس کو مسلمانوں نے صلح کے ذریعہ حاصل کیا ہو۔ ایسی صورت میں زمین کی شرائط اس معاہدے کے مطابق ہوتی ہیں جن پر صلح کی گئی ہے ۔ اگر صلح نامے پر یہ شرط موجود ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہب پر رہیں گے اور ان کی زمینیں بدستور ان کی ملکیت میں ہی رہیں گی تو ایسی زمینوں کو خراجی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں نے کسی علاقے کو جنگ کے ذریعے فتح کیا اس کے بعد مسلمانوں کے امیر نے اس علاقہ کی زمینوں کو مجاہدینِ اسلام میں تقسیم نہیں کیا بلکہ اپنے صوابدیدی اختیار کے مطابق ان زمینوں کو سابقہ مالکوں کی ملکیت میں بدستور قائم رکھا تو ایسی زمین کو بھی خراجی کہا جاتا ہے۔
    تیسری شرط:زمین سے پیداوار کا ہونا، لہذا اگر کسی وجہ سے پیداوار نہیں ہوئی، مثلاً مالک نے کوتاہی برتی، یا اس نے کھیت کی خبر گیری نہیں کی، یا کسی آفت کے سبب فصل اُگی ہی نہیں توہر صورت میں عشر ساقط ہو جائے گا۔ادا نہیں کیا جائے گا۔
    چوتھی شرط: پیداوار ایسی چیز ہو جس کو اگانے کا رواج ہو، اور لوگوں کی عادت یہ ہو کہ وہ اسے کاشت کر کے اس سے نفع بھی اٹھاتے ہوں لہذا وہ گھاس جو خود بخود اُگ آئے یا بے کار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں پیدا ہو جائیں تو ان میں عشر نہ ہوگا۔ اگر زمین میں بانس یا گھاس وغیرہ آمدن کی غرض سے لگایا گیا ہو تو اس میں عشر ہو گا، اگر خود بخود کوئی درخت اگا ہے تو اس میں نہیں ہو گا۔
    عشر کی ادائیگی کا تعلق عقل ،اندازہ اور تخمینہ سے نہیں بلکہ شریعت کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق ہے۔
    ٭ عشر کے مصارف:
    مسئلہ 1:    عشر کے مصارف اور مستحق وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔ایسامسلمان جس پر نہ زکوٰۃ واجب ہو اور نہ ہی غیر ضروری سامان کو ملا کر زکوٰۃ کے نصاب کی مالیت بنتی ہو تو ایسا شخص زکوٰۃ و عشر کا مستحق ہے۔
    مسئلہ2:    زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرح عشرکی ادائیگی کیلئے بھی مستحق شخص کومالک بنانا ضروری ہے،ورنہ عشر ادا نہیں ہوگا۔
    مسئلہ3:    مستحق افراد کو مالک بنائے بغیر عشر کا مال یا رقم کسی بھی رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں، اس سے عشر ادا نہیں ہوگا۔
    مسئلہ4:    جس پر عشر واجب ہوا ہے اگر وہ خود بھی عشر لینے والے مستحق افراد میں شامل ہو تو وہ اپنے عشر کا اپنی ذات کا مالک نہیں بنا سکتا ، کسی دوسرے مستحق شخص کو دینا ضروری ہے۔
    مسئلہ5:    عشر کی جگہ بطور صدقہ رقم یا غلہ اجناس وغیرہ دینے سے عشر کی ادائیگی نہیں ہوتی خواہ عشر کی مقدار سے زیادہ بھی صدقہ کر دیا جائے۔
    مسئلہ6:    عشر کے مصارف میں سب سے بہترین مصرف دینی مدارس و جامعات ہیں جہاں پر دین اسلام کو پڑھا پڑھایا، سیکھا اور سکھایا جاتا ہے، یہ واجب کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایسا صدقہ جاریہ بھی ہے جو مسلسل انسان کے نامہ اعمال میں جاری رہتا ہے۔
    ٭ عشر اور زکوٰۃ میںبنیادی فرق:
    ¤  زکوٰۃ کے واجب ہونے کیلئے مخصوص نصاب متعین ہے، اس سے کم ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جبکہ عشر کے واجب ہونے کیلئے نصاب مقرر نہیں ِپیداوار کم ہو یا زیادہ اس پر عشر واجب ہوتا ہے۔
    فائدہ:ہاں اگر کسی کی پیداوار پونے 2سیر سے بھی کم ہو تو اس قدر معمولی مقدار پر شریعت عشر واجب نہیں کرتی۔
    ¤  زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے مال یا سامان وغیرہ پر سال کا گزرنا ضروری ہے جبکہ عشر میں سال گزرنا ضروری نہیں بلکہ اگر کسی زمین میں سال میں 2مرتبہ فصل ہوتی ہے یا کسی باغ وغیرہ میں سال میں 2مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پھل وغیرہ لگتا ہے تو ہر مرتبہ عشر ادا کرنا ضروری ہے ¤   زکوٰۃ کی ادائیگی میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہے جبکہ عشر کے واجب ہونے میں یہ چیزیں شرط نہیںاسلئے اگر کوئی پاگل ہو یا ابھی تک نابالغ ہو تو اسکی زمین کی پیداوار پر عشر واجب ہوگاـ۔ ان لوگوں کے سرپرست افراد انکی طرف سے عشر ادا کرینگے¤  زکوٰۃ کے مال اور سامان وغیرہ کیساتھ قرض کا تعلق ہوتا ہے، یعنی اگر کسی پر قرض ہو تو اس قرض کو زکوٰۃ کے مال سے نکال کر زکوٰۃ ادا کیجاتی ہے جبکہ عشر میں ایسا نہیں۔ یعنی اگر کسی نے عشر ادا کرناہے تو اسکا قرض وغیرہ عشر سے نہیں نکالا جاتا¤   ایسی چیزیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب تک وہ نصاب کے برابر باقی رہتی ہیں اُن پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ، مثلاً:کسی کے پاس سونا یا چاندی وغیرہ موجود ہو تو جب تک یہ سونا یا چاندی وغیرہ موجود رہے گی ہر سال ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی رہے گی اور انکی زکوٰۃ نکالنا ضروری ہوگا جبکہ عشر میں ایسا نہیں ۔ مثلاً اگر پیدا وار میں سے ایک مرتبہ عشر ادا کر دیا، اسکے بعد وہ جنس غلہ وغیرہ اگرچہ کئی سال تک بھی اسکے پاس باقی رہے ،ہر سال اس کا عشر نہیں نکالا جائیگا۔
     ٭ چند متفرق مسائل :
    ¤  عشرپیداوارکی جنس سے دیناضروری نہیں بلکہ اسکی قیمت سے بھی ادا کیا جا سکتی ہے¤ عشر کیلئے ضابطہ یہ ہے کہ جتنی پیداوار حاصل ہو چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا عشر ادا کیا جائے¤ عشر جس طرح کھیتی میں واجب ہوتا ہے اسی طرح پھل اور سبزیوں میں بھی واجب ہے¤ اگر کسی درخت سے سال میں ایک سے زائد مرتبہ پھل حاصل ہوتا ہو تو جتنی مرتبہ پھل حاصل ہو گاتو ہر مرتبہ اس پر عشر واجب ہو گا¤  اگرکوئی سبزی ایسی ہو جو ایک مرتبہ کاٹنے کے بعددوبارہ اُگ آتی ہوتوجتنی مرتبہ اسے کاٹیں گے ہر مرتبہ اسکاعشرواجب ہوگا¤ اگرفصل، پھل یاسبزی تھوڑی تھوڑی کرکے کاٹی جائے یاتوڑی جائے تو اس صورت میں جتنی مقدار کاٹتے یا توڑتے جائیں اسی کاعشراداکرتے جائیں¤ جن چیزوں کی پیداوار مقصود ہو تو ان میں عشر واجب ہوتا ہے جیسے کپاس، گندم، چاول، چنا، مکئی، سبزی، پھل وغیرہ اور جن چیزوں کی پیداوار مقصود نہ ہو بلکہ پیداوار کیساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہوں جیسے گندم کا بھوسہ، مکئی کا بھوسہ، چاول کا بھوسہ یا خود بخود اگ آتی ہوں جیسے گھاس وغیرہ تو اصولاً ان میں عشر واجب نہیں لیکن اگر اس قسم کی چیزوں کی پیداوار مقصود ہو خواہ بیچنے کیلئے یا ذاتی استعمال یا جانوروں کے چارہ وغیرہ کیلئے تو ان میں بھی عشر واجب ہو گا¤ اگر کھیتی مثلاً گندم، مکئی، جَو وغیرہ کو جانوروں کے چارے کے حصول کیلئے بویا جائے اور پختہ ہونے سے پہلے ہی کاٹ لی جائیں تو چونکہ ان چیزوں سے بھی پیداوار مقصود ہوتی ہے اسلئے ان میں بھی عشر واجب ہو گا¤ کسی بڑی فصل مثلاً گندم، گنا وغیرہ کیساتھ کوئی دوسری فصل بھی ضمناً شامل کر دی جیسے لوبیا، چنے وغیرہ تو اس پر بھی عشر واجب ہے کیونکہ یہاں ان چیزوں کی پیداوار مقصود ہوتی ہے¤ زمین میں خود رو درخت پیدا ہو جائیں تو ان میں اور حاصل شدہ لکڑی میں عشر واجب نہ ہو گا،ہاں اگر انکو لکڑی کے حصول کی غرض سے لگایا جائے تو ان پر بھی عشر واجب ہو گا¤ درخت سے نکلنے والی چیزوں مثلاً گوند وغیرہ پر عشر واجب نہیں۔ اسی طرح مختلف سبزیوں اور پھلوں کے بیج جوصرف کھیتی کیلئے استعمال ہوتے ہیں یا دوائی کے کام آتے ہیں (غذائی اجناس کے طورپرنہیں ہوتے) جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ کے بیج تو ان پر بھی عشر واجب ہے¤ عشری زمین سے اگرشہدنکالا جائے تواس پربھی عشرواجب ہے، شہد کے عشر میں ہر حال میں10واں حصہ واجب ہے خواہ اس پرکتنے ہی اخراجات آئیں، یہ اخراجات اس سے نکالے نہیں جائیں گے¤ گھرکے صحن وغیرہ میں سبزی یادرخت لگائے جائیں توان سے حاصل ہونیوالی پیداوارپرعشرنہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں مکان کے تابع ہیں اورمکان پرعشرنہیں لہٰذا ان چیزوں پر بھی عشر نہیں¤ اگرکسی نے ان پررہائشی مکان کومسمارکرکے اسے مستقل باغ سے تبدیل کر دیاتو چونکہ اب اسکی حیثیت باغ کی ہے اسلئے اس باغ میں آنیوالے پھلوں پر عشر واجب ہوگا¤ اگرعشری زمین مزارعت پر دی جائے (عموماً زمین زمیندار کی اور محنت، بیج، ہل وغیرہ کاشتکار کے ذمے ہوتا ہے اور پیداوار میں دونوں کا حصہ ہوتا ہے)، اس صورت میں زمیندار اور کاشتکار دونوں پر اپنے اپنے حصے کی پیداوار کا عشر واجب ہے¤ اگرعشری زمین ٹھیکے پر دی گئی تو پیداوار کا عشر کرائے دار پر ہوگا، زمین کے مالک پر نہیں¤ زمین کوکاشت کے قابل بنانے سے لیکرفصل پکنے تک جتنے اخراجات ہوتے ہیں مثلاً ہل چلانا، زمین سے اضافی جڑی بوٹیوں کو ختم کرنا، بیج ڈالنا، پانی دینا، کھاد ڈالنا،اسپرے کرنا ان اخراجات کو عشر کی ادائیگی سے نہیں نکالاجائیگابلکہ اخراجات نکالے بغیر زمین کی کل پیداوارپرعشرواجب ہوگا¤فصل پکنے کے بعد ہونیوالے اخراجات کوبھی نہیں نکالا جائیگا اسلئے کٹائی کی اجرت، تھریشروغیرہ کاخرچہ بھی نکا لے بغیرعشر ادا کیاجائیگا¤ اگر پیداوار کامالک مقروض ہے توبھی اس پرعشرواجب ہوگا،قرض کو پیداوار سے نہیں نکالاجائیگا¤ کھیتی بونے اور باغ میں پھول آنے سے پہلے عشر ادا کرنا جائز نہیں البتہ کھیتی اگنے اور باغ میں پھول آنے کے بعد یعنی پھل ظاہر ہونے سے پہلے پہلے عشر کو نقدی کی صورت میں ادا کرنا جائز ہے¤ فصل ، پھل یا سبزی پکنے سے پہلے پہلے اس قابل ہو جائے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو عشر واجب ہو جاتا ہے¤ اگر کسی نے فصل یا پھل کو پکنے سے پہلے کاٹ لیا یا توڑ لیا تو جس مقدار کے برابر فصل کاٹی یا پھل توڑے تو اسی کے برابر عشر ادا کرنا واجب ہے¤ اگر کسی نے پوری فصل یا پھل کو یا پھر اسکے کسی حصہ کو قابل استعمال ہونے کے بعد خود ختم کر دیا مثلاً مکمل یا بعض پیداوار کو خود استعمال کر لیا خواہ جانور کے چارہ کے طورپر کھلا کر ہی کیوں نہ ہو تو اسکے ذمہ سے عشر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کو استعمال شدہ مقدار کا حساب لگا کر عشر ادا کرنا واجب ہوگا¤  اگر کسی نے خود ضائع یا استعمال نہیں کیا بلکہ آسمانی آفت سیلاب، تیز آندھی، طوفانی بارش ، بجلی کے گرنے یا آگ وغیرہ لگنے سے ساری فصل تباہ ہو گئی یا چوری ہو گئی تو اسکے ذمے عشر واجب نہیں ، ہاں البتہ اگر مکمل تباہ یا چوری نہیں ہوئی بلکہ کچھ پیداوار باقی ہے تو اسکا عشر ادا کرنا واجب ہوگا¤ اگر کسی شخص نے دوسرے کی پیداوار کو ضائع کر دیا تو زمین کا مالک اس ضائع کرنیوالے سے تاوان وصول کرے اور اس میں سے عشر ادا کرے۔ ہاں جب تک ضائع کرنیوالا تاوان ادا نہیں کرتا تب تک مالک کے ذمے عشر ادا کرنا ضروری نہیں¤ بعض درخت ، فصل ، پودے ایسے ہیں کہ جن سے پھل مقصود نہیں ہوتا بلکہ ان کے پتے کام آتے ہیں مثلاً تمباکو ، پان وغیرہ ،ان کے پتوں میں عشر واجب ہوگا¤ اگر کسی نے زمین پر کھڑی فصل ، درخت یا باغ پر لگے پھل کو پکنے کے بعد فروخت کیا تو اسکا عشر ادا کرنا فرو خت کرنیوالے پر واجب ہوگا ، خریدار پر نہیں¤ اگر فصل یا پھل پکنے سے پہلے فروخت کیا تو اب عشر خریدار کے ذمہ ہے ، فروخت کرنیوا لے کے ذمہ نہیں¤ وہ زمین جو وقف کی ہے مثلاً کسی رفاہی ادارے ، مسجد ، مدرسہ وغیرہ کی ہے اگر وہ عشری زمین ہے تو اس سے حاصل شدہ پیداوار کا عشر ادا کرنا ضروری ہے¤ وہ پہاڑ اور جنگل جو کسی کی ملکیت میں نہیں اور عشری زمین میں ہیں اُن سے جو شخص بھی پھل حاصل کرے اس پر عشر ادا کرنا واجب ہے۔
    یہ وہ دین کی باتیں ہیں جن کا علم اور اس پر عمل مسلمان کیلئے ضروری ہے بالخصوص وہ زمین دار لوگ جن کو اللہ کریم نے زمین جیسی نعمت سے نوازا ہے ۔زمین سے حاصل ہونے والے غلہ اناج وغیرہ میں اللہ کا حق ادا کرنا لازمی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی ان مسائل کو سیکھیں اور اپنے کسان بھائیوں کو بھی شریعت کے مسائل سمجھائیں۔
     اللہ ہمیں دین پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
مزید پڑھیں:- - - -کہانی ایک جھوٹے دعویدار کی

شیئر: