Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عزت لٹی، جان بھی گئی، آواز دو انصاف کہا ں ہے

بیٹی 8 سال کی ہو یا 18 سال کی، ہندو ہو یا مسلمان، کھٹوعہ کی ہو، یا اناؤ کی، ساسارام کی ہو یا امیٹھی کی، زیادتی کی سزا پھانسی ہو نی چاہئے
* * * حافظ محمد ہاشم صدیقی۔ جمشید پور* * *
 ہندوستان کبھی جنت نشان کہلاتا تھا ۔ہمارے ملک کا قومی ترانہ ہے: سا رے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ،ہم بل بلیں ہیں اسکی یہ گلستان ہما را جو یومِ جمہوریہ 26 جنوری کو گا یا جاتا ہے۔جس گلستان میں اس کے بسنے والے محفوظ نہ ہو ں، امن و چین سے نہ ہو ں، جس کی بلبلیں، کو ئلیں محفوظ نہ ہو ں، کو ئل، بلبل کی عزت لوٹی جا رہی ہو، تار تار کی جا رہی ہو، اسکی عزت و آبروپر روز روز ڈاکہ ڈالکر شرم شا ر کر نے والی حر کتیں کی جا رہی ہوں تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سار ے جہاں سے اچھا ہے ہندوستان ہمارا؟    
    کھٹوعہ کا شرم ناک اور دلدوز واقعہ8 سا لہ معصوم بچی آصفہ کی عزت لٹی، جان بھی گئی۔ تلک راج،سنجے رام، وشال جنگو تر، دیپک کھجور یا وغیرہ نے شرم حیا کے اور انسانیت کے سارے پیمانے ہی توڑ دیئے۔ اس سے بڑھ کر شرم شار کرنے والی بات یہ ہوئی کی انصاف کی پناہ میں جانے پر انصاف کی حفاظت کرنے والوں نے ہی انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی جسارت کی۔ یہ انتہائی دیدہ دلیری اور فکر کی بات ہے۔ اسی طرح اناؤ کی عورت کا کیس بھی شرمناک ہے۔
    عزت بھی گئی، انصاف ما نگنے والا بیچارہ با پ اپنی جان سے گیا اور زیادتی کرنے والا بی جے پی کا ایم ایل اے کلدیپ سنگر با ہر گھوم تا رہا ۔بھلا ہو الٰہ آ با د ہائی کورٹ کا ایکشن لیا تو بلا تکاری اریسٹ ہوا ۔ایس آئی ٹی ٹیم کو قا نو نی رکاوٹیں کھڑی کرکے، اسی طرح کھٹوعہ میں چار ج شیٹ داخل کر نے میں رکاوٹ ڈالنا انتہائی شرمناک اور فکر کی بات ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا لکھوں، یہ ملک کہا ں جا رہا ہے۔ سبھی کے لیے سو چنے، فکر کرنے اور ملک کی بھلائی کے بارے میں کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
     کسی قوم کی تہذیب و تمدن اور ترقی کا حال معلوم کرنا ہوتو دیکھو اس کے معاشرے میں عورت کا درجہ کیا ہے ؟بہترین طور قوم کو جانچنے پرکھنے کا معیار یہی ہے۔جس زمانے میں اللہ کے رسول محمد رسول   اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کیلئے مبعوث ہوئے تو عورت ساری دنیا میں محکوم تھی ۔وہ بہت سے قانونی حقوق سے محروم تھی ، لڑکیوں کو زندہ دفن کردینے کے ساتھ زنا کاری پر بے حیائی کے ساتھ عمل تھا۔ رسول اللہ نے اپنی تعلیمات ، تزکیہ اور وہدایات کے ذریعہ جواللہ کی جانب سے آپ نے انسانیت کو پہنچائیں ،ان عیوب ونقائص کا یکسر خاتمہ کر دیا۔
    اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عورت اور مرد مساوی سطح پر ہیں۔ نیکو کاری کے معاملے میں بھی اور اس کی جزا اور انعام کے معاملہ میں بھی ۔قرآن حکیم میں اسی پر بار بار زور دیا گیا۔جو شخص کوئی نیک کام کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو اس شخص کو (دنیا) میں اس کے اچھے کاموں کے عوض میں انکا اجر دیں گے (النحل97 ) ۔
    خدا بیزارذہنیت کا محض ظاہری فوائد کو نظر رکھ کر کسی شئے کے اچھے برے ہونے کا فیصلہ کر نا صحیح نہیں بلکہ اس کی معنویت اور پوشیدہ نتیجہ خیزی کو بھی بہر حال ضرور مد نظر رکھنا چاہیے۔ اخباری رپوٹوں کے مطابق یورپ میں بہت سے لوگ بن بیاہ رہتے ہیں تو ان کی نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ ایسی عورتوں کا ہونا بھی ضروری ہے جو انہی کی طرح محض نفسانی یا شہوانی تکمیل ِحاجات کی تجارت کرتی ہوں،لہٰذاعورتیں جو عصمت فروشی کا پیشہ اختیار کیے ہوئی ہیں سیکس ورکرس کے زمرے میں داخل ہیں ۔نعوذ باللہ ۔
    اب اندازہ لگائیں اْس معیار فکر کا جس نے انسانی نظام ِ حیات کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔کیا ایڈس (Aids) خدائی عذاب نہیں ۔آج ایڈس نے دنیا میں بلکہ ہندوستان میں یہ مرض بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔محکمۂ صحت کے وزیرکا ابھی حال ہی میں یہ بیان اخبار بینوں نے پڑھا ہوگا کہ اس مہلک بیماری نے ہلچل مچا رکھی ہے۔نہایت تیزی کے ساتھ ہزاروں مریضوں کی جان لینا… کیا اس خدا بیزار اور مادر پدر آزاد تہذیب کے منہ پر یہ قدرت کا طمانچہ نہیں ؟ خواہشاتِ نفسانی وقارِ بشری کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے ۔خواہشات کی اتباع کرنا شانِ بندگی کو مسخ کرکے رکھ دیتا ہے۔سماج میں خواہشات و شہوات کی زیادتی سماج کیلئے رسوائی وذلت کا سبب بنتی ہے۔ جیسے دہلی میں دامنی نام کی لڑکی (زیادتی کیس) کا شرم ناک واقعہ ہوا اور پھر مسلسل حادثات ہوتے چلے آرہے ہیں۔یہ بات مسلمہ ہے کہ عورت کی آزادی کے نام پربلا روک ٹوک دیر رات تک بوائے فرینڈ کے ساتھ گھو منا پھرنا ،اس سے جنسی اختلاط پروان چڑھے گا تو انجام کار اِفعالِ شنیعہ (برے کام ) کا ارتکاب ضرور ہوگا۔اسی لئے محمد عربی نے واضح قانون کا نفاذ فرماتے ہوئے خدائی حکم قرآن کا اعلان فرمایا :
     ’’زنا کے قریب نہ جاؤ،یہ بڑی بری راہ ہے اور برا چلن ہے۔‘‘(القرآن)۔
     زنا انتہائی برا فعل ہے۔ صرف اس سے اجتناب اور پرہیز ضروری نہیں بلکہ اس کے داعی اور تقریب وتمہید کے کاموں سے بھی بچنا ضروری ہے کیونکہ شرافت و نجابت کا یہ تقاضا ہے کہ اس فعل سے نہیں بلکہ اس کے جتنے دواعی ہیں ،اُس سے اجتناب و احتراز کیا جائے۔اسی لئے اسلام نے ان تمام حرکات و سکنات کو جو بے حیائی، بے شرمی ، بدکاری میں معمولی رول بھی ادا کرتے ہیں، حرام قرار دئیے ہیں اور معاشرے کو ان سے پاک و صاف کرکے صالح معا شرہ بنانے کی ہرممکن کوشش فرمائی۔ انسانی جان کی اہمیت مذہب اسلام میں موجود ہے۔ اسلام میں انسانی جان کے قتل میں قصاص کی سزا مقرر ہے مگر ناموس یاعزتِ (زیادتی) انسانی کو داغ دار کرنے کی سزاصرف اور صرف سنگساری کی موت ہے۔
    اگر کسی کے ہاتھوں کوئی ہلاک ہو جائے اور مقتول کے ورثاء اگر رضا مند ہو جائیں تو جان کے بدلے مال فدیہ یعنی (دیت جرمانہ) لے کر قاتل کی جان بخشی کر سکتے ہیں بہ خلاف اس کے ( زیادتی) زانی اور زانیہ کے سلسلے میں طرفین کی مصالحت کی بنیاد پر بھی اس جرم کی تلافی کا کوئی راستہ سرے سے ہے ہی نہیں۔معلوم ہوا اِسلام ناموس وعصمت کو انسانی زندگی سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور زنا کے مجرم کو خدائی مجرم قرار دے کر موت کی سزا مقرر کرتا ہے اور حکم دیتا ہے: زنا کے قریب نہ جاؤ، یہ بڑی بری راہ ہے اور برا چلن ہے ( القرآن)۔ آج بھی وہ تمام برائیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو ایا م جاہلیت میں جاری تھیں لیکن فرق اتنا ہے کہ پہلے یہ تاریکی کے پردے میں کی جارہی تھیں ، آج علم و فن ،تہذیب و آزاوی کے نام پر کی جارہی ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ محمد عربی کی نافذ کردہ اصلاحات کو عام کیا جائے ،اس پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی جائے اور معاشرہ کو صالح اور پاکیزہ ماحول عطا کیا جائے۔
    بیٹی 8 سال کی ہو یا 18 سال کی، بیٹی ہندو ہو یا مسلمان، بیٹی کھٹوعہ کی ہو، یا اناؤ کی، ساسارام کی ہو یا، امیٹھی کی، زیادتی کی سزا پھانسی پھانسی پھانسی ہو نی چاہیے۔ عورت کی آبرو جا ن سے زیادہ قیمتی ہے۔ پی ڈی ایف ہو یا بی جے پی دونوں مجرم ہیں۔ ہندوستان میں قانون، انصاف، جمہوریت انسا نیت سب دم توڑ چکی ہے ۔
     اللہ تعالیٰ ہمیں صالح معاشرہ قائم کر نے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین۔
مزید پڑھیں:- - - - -عورت کے ٹیڑھ پن سے فائدہ اٹھاؤ ، حسن سے لطف اندوز ہو

شیئر: