Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی عجب دوراہے پر آ کھڑی تھی

   وہ ایک رئیس خاندان کی بہو تھی،بہت بڑی حویلی میں درجن بھر نوکراس کے ناز نخرے اٹھانے کیلئے ہر وقت کمربستہ تھے مگر شوہر کی بے رخی اسے کھائی جارہی تھی
ناہید طاہر۔ ریاض
قسط 11
دعوت نامے تقسیم ہوئے   اور ناہی کوئی شور شرابہ ہوا۔دراصل دادو کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔وہ موت وحیات کے درمیان کھڑے تھے۔۔۔۔۔انھوں نے اپنے مرحوم دوست سے کیے گئے وعدے کوپوراکردیاتھا اور یہ شادی انجام تک پہنچ گئی تھی۔ اس نازک حالت میں رضا کااس شادی سے انکار یا  احتجاج مناسب نہ تھا۔سو اس نے سر جھکا کرخود کو حالات کے حوالے کردیا۔ 
زندگی عجب دوراہے پر آ کھڑی تھی ۔ اْس مغرور شخص کے  ساتھ گزرنے والا ہر لمحہ سچ مچ نارِ سقر ثابت ہورہاتھا۔رضازیست کاحصہ تو بن بیٹھا  لیکن اس کا انداز ایسا تھا کہ ثانیہ اس تک پہنچنے کی جسارت نہیں کرپاتی ، جب بھی اس پر نگاہ پڑتی تووہ  دسترس سے  دور نظر آتا۔جیسے آسمانوں کی بلندیوں پر ، جہاں  پہنچنے کا اس میں حوصلہ تھااور نہ ہی حیثیت! گویا اس مغرور شخص تک رسائی کے سارے راستے معدوم تھے۔
رضا اس کے لئے قدرت کی جانب سے تحفہ تھا یا کسی ناکردہ گناہوں کی سزا جس کاوہ فیصلہ نہ کر سکی۔ہاں اتنا ضرور تھاکہ اللہ تعالیٰ کو اس کا کوئی تو عمل بے حدپسند آیا ہوگاجس کے نعم البدل اللہ پاک نے اسکورئیس گھرانے کی بہوبننے کا شرف بخشا۔بے انتہا پیار کرنے  والے ساس، سسر اور دادو کا ساتھ میسر ہوا۔  دامن میں بے شمار خوشیاں بھر تو گئیں لیکن یہ خوشیاں  شوہر کے پیار بھرے خوشنما رنگوں سے  عاری تھیں۔۔۔۔اس کے باوجود  اس نے حالات کامقابلہ کرنے کیلئے کمر کس لی اور اداس سی زندگی میں خوشیوں  کے پہلو تلاش کرتی ہوئی  حوصلوں کا دامن تھامے آگے بڑھتی چلی گئی۔قدرت نے ان دونوں کی مرضی کے خلاف جس رشتے کی ڈور سے انھیں باندھا اسی ڈور سے دو خاندان کی خوشیاں بھی جوڑ رکھی تھی جس کی حفاظت کرنااور اسے  مضبوطی بخشناثانیہ کی حیات کا اولین مقصد  بن گیا۔ وہ ان نازک حالات میں  ثابت قدمی  سے ناممکن کو ممکن  بنانے  میں جٹ گئی۔  اس نے رشتوں کو ملائمت سے سمیٹا اور خود کو موم کی صفت میں ڈھال لیا۔رضا پتھر کا صنم بن بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔جس کی سنگ دلی اور ترش روئی کی تپش  سے وہ پگھل کر فنا ہونے لگتی۔ دوسرے ہی پل بڑی سمجھ داری   سے خود کو  پگھل کر بکھر جانے سے بچا لیتی۔
دادو قدرت کے کرشمہ کی طرح دھیرے دھیرے زندگی کی جانب لوٹ رہے  تھے۔ثانیہ کی خدمت اور مخلص شخصیت کا اثر تھا جس نے دادوکو  موت سے لڑ نے کی قوت بخشی تھی۔
نیک سیرت بہو کی  خدمت گزاری پر شوکت صاحب بہت خوش تھے۔حمیدہ بیگم بھی ثانیہ کو بیٹی کی شکل میں پاکر مسرور تھیں۔ زندگی خوشیوں کے ہنڈولے میں جھول رہی تھیں۔گھر کے سارے افراد خوش تھے۔اگر کوئی رنجیدہ تھا تو وہ رضا تھا جس کو حالات کی تبدیلی ہضم نہیں ہو پارہی تھی اور ان سے نمٹنے میں کافی مشکلات پیش آرہی تھیں۔
 
الطاف حسین حویلی بہت خوبصورت تھی۔مختلف پگڈنڈیوں سے گزرنے کے بعد یہ حویلی واقع تھی۔دراصل یہ ایک خوبصورت وادی تھی۔۔۔
آسمان کو چھوتے سایہ داردرختوں سے آراستہ راہیں۔۔۔!!!   پرسکون برف سے ڈھکی وادیوں میں امن کے پنچھی  جو پیغامِ محبت سناتے ہوئے پرواز بھر تے بہت خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔۔۔۔۔رنگ برنگی ننھی ننھی چڑیاں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتی نظر آتیں جن کی چہچہاہٹ کانوں میں مصری گھول دیتی تھی۔یہاں سے دور ایک بہت بلند چٹان کھڑی تھی جہاں سفید بادل اسے باہوں میں لئے جھولا جھلا تے نظرآتے  اور آسمان اسے گلے لگائے جھومتا نظر آتا تھا۔۔!
ثانیہ گھنٹوں کھڑکی کے قریب کھڑی باہر کا نظارہ کرتی ہوئی سوچتی کہ اگر کائنات اتنی خوبصورت ہے تواس پاک پروردگار عالم نے جنت کتنی حسین بنائی ہوگی؟ اسے پاک ذات کی اس خوبصورت شاہکار نما وادی پر رشک آتااور ساتھ ہی اپنی قسمت پر !!!!
حویلی بہت بڑی تھی۔خوبصورت خواب گاہیں اور وسیع لاؤنج پر منحصر۔ لان بھی حدِنظر وسیع  تھا جس میں جاپانی مخملی گھانس تھی ۔بے شمار پودوں سے آراستہ لان حویلی کی جیسے زینت تھا۔اس حویلی  میں مکین سے زائد ملازمین  تھے۔ اتنی بڑی حویلی اور اس میں رہنے والے کل 4 افراد  ،رضا کے والدین ،دادو اور مغرور رضا۔پانچویں وہ آگئی تھی جو ایک بد روح کی مانند سارادن اس حویلی کے اردگرد چکر کاٹتی رہتی۔۔۔۔کام تو کچھ تھا نہیں۔کیونکہ اس کے کافی ناز نخرے اٹھائے جارہے تھے۔حد تو یہ تھی کہ اس کی  ہلکی سی چھینک پر کئی ملازم دوڑے چلے آتے  تھے اور ساس صاحبہ بے چین ہوجاتی۔
ثانیہ  بڑی خوش اسلوبی سے بہو  کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ دونوں کے درمیان جو سرد جنگ جاری تھی بڑی وفا سے نبھائی جارہی تھی ۔ویسے اس بات کا علم پاس سے گزرنے والی فضاء بھی محسوس نہ کر پائی تھی ، اسی بات  سے ثانیہ کی اعلیٰ ظرفی ظاہر ہورہی تھی۔۔۔۔ جسکا احساس رضا کوہونے لگاتھا۔لیکن  دل پر ،انا کا  رنگ چڑھ چکا تھا جو کافی گہراتھا۔۔۔۔۔۔اسے دھلنے میں وقت تو لگے گا۔۔۔۔۔! 
پھولوں کی مانندنرم وملائم  جذبات میں اتنی قوت کہاں جو تکبر و انا کے گہرے داغ دھو کر ان میں پھولوں کے رنگ و خوشبو  بھر سکے۔!!!!
ثانیہ چاہتی تھی کہ رضا بھی والدین کی خوشی میں خوش رہے۔۔۔لیکن وہ اکڑ باز جھکنا نہیں جانتا تھا۔
ثانیہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ مزاج اور رویہ تبدیل کرنے سے ہی شاید کسی کے دل تک رسائی ممکن ہوسکے گی ، گھر کی سلطنت نے تخت اس کے حوالے کردیا تھا ۔ابھی صرف رضا کے دل پر فتح حاصل کرنا باقی تھا جس کیلئے بہت سے آزمائشیں اورامتحانات سے گزرناباقی تھا۔ کامیابی حاصل کرنے کی چاہ میں وہ کوشش میں لگ گئی۔!ازدواجی زندگی کی شاہراہ اور اس کے نشیب وفراز بہت سنگین تھے اور ان پگڈنڈیوں سے گذرکررضا کے دل تک رسائی حاصل کر نا گویا ایک معرکہ سر کرنے کے برابر تھا اس کے باوجود اس نے کمر باندھ لی۔۔۔کیونکہ ثانیہ اپنے والدین کو کرب نارسائی بخشنا  نہیں چاہتی تھی(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: