Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرفرازاحمد کا اصل امتحان ایشیا کپ

 
ایڈنبرا:پاکستان اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کپتان سرفراز احمد کے کھیل پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اس میچ میں سرفراز پر کوئی دباو نظر نہیں آیا اوربڑے عرصے بعد وہ ایسے فلو میں اور اتنا کھل کر کھیلتے نظر آئے۔ بطور کپتان یہ ان کی پہلی 'دھواں دھار' اننگز تھی۔یونس خان جتنے بڑے بیٹسمین تھے، اتنے ہی بڑے کپتان بھی تھے۔ دباومیں فیلڈ اسٹریٹیجی وضع کرنا ان کا خاصہ تھا۔ 2009ء کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اس کی بہترین مثال ہے لیکن اس کے باوجود ان کی کپتانی قلیل المیعاد ہی رہی۔چند روز قبل ایک ٹی وی شو میں یونس خان یہ کہتے سنائی دیے کہ کپتانی ان کے بس کا روگ نہیں تھا، ان کا ٹیمپرامنٹ آڑے آتا تھا، اس لئے انھوں نے کپتانی چھوڑ دی تھی۔یہ اس شماریاتی الٹ پھیر کا نفسیاتی اعتراف تھا جو کپتانی ملنے کے بعد یونس خان کے کیرئیر ا سٹیٹس میں در آیا۔ کپتان بننے کے بعد بیٹسمین یونس خان کی فارم بگڑ گئی۔ عین ممکن ہے اگر ان کی کپتانی چلتی رہتی تو شاید10 ہزار ٹیسٹ رنز تک پہنچنا بھی دشوار ہو جاتا۔جب حالات کسی پلئیر کو کپتانی کی طرف لے جاتے ہیں تو قیادت ملنے کے بعد سب سے بڑا نفسیاتی امتحان اس کی اپنی فارم کا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ قیادت کی ذمہ داری پڑتے ہی بیٹسمین بیٹنگ کرنا بھول جاتا ہے یا بولر بولنگ کرنا بلکہ اضافی ذمہ داری اس کی صلاحیت کو متاثر کر دیتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سرفراز احمد پاکستان کے خوش نصیب ترین کپتان ہیں۔ آتے ہی چیمپئینز ٹرافی جیت لی۔ ٹی ٹوئنٹی ٹیم کو نمبر ون رینکنگ پہ لے آئے۔ سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کو ایک سے زیادہ بار کلین سویپ کر چکے ہیں۔ پچھلے دنوں لارڈز میں بھی تاریخی فتح حاصل کی۔ لیکن ایسی خوش نصیبی کے باوجود ان کی بیٹنگ فارم بہت مثبت نہیں رہی گو ان کی تکنیک اور اسٹائل وہی ہے جو چار سال پہلے تھا، لیکن کپتان بننے کے بعد وہ کوئی غیر معمولی اننگز نہیں کھیل پائے۔ وکٹوں کے پیچھے بھی ان کا ریکارڈ خوشگوار نہیں رہا۔بڑے بیٹسمین جب تواتر سے پانچ دس اننگز میں ناکام ہو جائیں تو عموماً ان کے کپتان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ و ہ بس ایک بڑی باری کی دوری پر ہے۔ فاف ڈو پلیسس نے کچھ عرصہ قبل ڈی ویلئیرز کے بارے یہی کہا تھا لیکن سرفراز کے گرد شور ہی اتنا رہا کہ کسی کو یہ کہنا بھی یاد نہ رہا کہ سرفرا بس ایک بڑی باری کی دوری پر ہے۔ اکثر کھلاڑیوں کو یہ بڑی باری یا تو بہت ہائی وولٹیج میچ میں ملتی ہے یا پھر بالکل لو پروفائل میچ میں کہ وہ ہر طرح کے پریشر سے آزاد ہو کر اپنی اصل شناخت کو کھوج سکیں۔پاکستان کے متزلزل بیٹنگ آرڈر کے لیے اگلا بڑا امتحان ایشیا کپ ہے جہاں اس کا مقابلہ ایشین کنڈیشنز کے آزمودہ اٹیکس سے ہوگا۔ اس امتحان سے پہلے سرفراز کی بیٹنگ فارم کا واپس آنا پاکستان کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔اسکاٹ لینڈ اپنی بیٹنگ سے نہیں، بولنگ سے ہارا۔ لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ پہلے دس اوورز میں اسکاٹ لینڈ نے بہت اچھی بولنگ کی مگر سرفراز کے کریز پر آتے ہی سماں بدل گیا۔ وہاں اسکاٹ لینڈ کی بجائے کوئی آزمودہ اٹیک بھی ہوتا تو یونہی اوسان بھی خطا ہوجاتے۔

شیئر: