Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا نقصان نسلوں کو اٹھانا پڑتا ہے، پروفیسر مراد خاتون

 زینت شکیل۔جدہ 
    رب العرش العظیم کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اسی پر ہم نے بھروسہ کیا اور وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ دعا ہے کہ ہمارا رب کریم ہمیں کثرت سے توبہ کرنے والوں میں شامل فرما لے اور ہمیں خوب پاک صاف رہنے والوں میں داخل فرمادے، آمین یا رب العالمین۔
انسانی زندگی کا ایک بڑا حصہ سوچ سمجھ اور شعوری کوشش کا مطالبہ کرتا ہے۔ جسمانی و ذہنی قوت کا درست سمت میں استعمال مالک حقیقی کی مدد سے ہی ممکن ہے۔بڑوں کی عزت کرنا اور بچوںکے ساتھ شفقت برتنارحمت کا سبب ہیں ۔مفید علم کو عام کرنا، اپنے لوگوں کو تعلیم سے بہرہ مند کرنا ، خالق و مالک کی رحمت سے ہی ممکن ہے ۔ہر انسان کو اپنے ارادے اور کوشش کا اجر ملتا ہے۔حکم تو قدرت کا ہی ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے ہوا کے دوش پرہماری گفتگو جناب اقبال پنمور اور انکی اہلیہ پروفیسر مراد خاتون سے ہوئی جنکا کہنا ہے کہ ہر انسان اپنی عزت چاہتا ہے اور ہمیں اسی فرمایا گیا ہے کہ مفید علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر واجب ہے ۔کسی بھی معاشرے کی عزت اس کی اخلاقیات پر منحصر ہے ۔اسی لئے بتادیا گیا ہے کہ علم قیمتی خزانہ ہے۔ علم والے لوگ کسی بھی ریاست کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔
پروفیسر مراد خاتون سمجھتی ہیں کہ ہمارے یہاں شہری یا دیہی ہر جگہ اکثر گھرانوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو فوقیت دی جاتی ہے حالانکہ آج کی لڑکیاں ہمارے مستقبل کی مائیں ہیں جن پر نسل نو کی تربیت کی ذمہ داری ہو گی۔ انہیںتعلیم سے دور رکھنے کا نقصان ایک پوری نسل کو اٹھانا پڑے گا۔ بچے ماں کی گود میں سب سے اہم اور سیکھنے کادور گزارتے ہیں اس کے بعد مکتب و مدرسے سے فیض حاصل کرتے ہیں ۔بڑی بڑی ڈگریوں کا حصول تو ساری زندگی جاری رہتا ہے لیکن شخصیت کی تکمیل بچپن میں ہی ہوجاتی ہے ۔اس لئے جو غلطی ہو چکی، اب اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں اچھی مائیں ملیں جو بہترین قوم کے پنپنے میں مددگار بن سکیں۔ 
اسے بھی پڑھئے:گھر میں سب سے چھوٹی بیٹی تھی، سسرال میں سب سے بڑی بہو ہوں،تبسم ناصر
محترمہ مراد خاتون نے بتایا کہ ہمارے والد چونکہ سرکاری نوکری کرتے تھے، اس لئے مختلف جگہوں پر ملازمت کے سلسلے میں جانا  آنا ہوتا رہتا تھا لیکن ہم سب بھائی بہن اپنے آبائی مکان میں ہی رہتے تھے اس لئے تعلیم کا ہمار احرج نہیں ہوا۔ سب نے ہی اعلیٰ تعلیم کا حصول اپنے لئے ممکن بنایا۔ ہم 10بھائی بہنوں نے تعلیم کو اپنی زندگی میں سب سے ترجیحی بنیاد پر اول درجہ دیاکیونکہ تعلیم ہے تو سب کچھ آسان ہے۔ کسی کی مددلئے بغیر اپنا کام کرنا ہے اور زندگی کیسے گزارنی چاہئے، اس کا شعور حاصل کرنا ہے۔ اپنے علاقے میں جہاں تک ممکن ہوسکے علم کی روشنی پھیلانی ہے ۔یہی سب سے اچھی مصروفیت اور مشن ہے۔ پڑھیں اور پڑھائیں، یوںاپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی آسانی ہوگی ۔صرف دوسروں کی طرف دیکھنا کہ فلاں ہماری مدد کردے ہمارا کام ہو جائے اس سوچ سے چھٹکارا مل جائے گا اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ علم عمل کے بغیر مکمل نہیں اور ایمان امید اور خوف کے درمیان ہے۔ ہمیں اپنی بہتری کے لئے کوشش اور دعا کرنی ہے نتیجہ اللہ کریم پر چھوڑ دینا ہے۔
پروفیسر صاحبہ نے بتایا کہ وہ یکم فروری 1952ءکو اس دنیا میں آئیں چونکہ اپنے والدین کی دوسری اولاد ہیں تو اس وقت
 انکے والد صاحب نے اپنی پیاری بہن”مراد خاتون“ کی یاد میں ان کا نام بھی”مراد خاتون“ ہی رکھا تاہم وہ پیار میں ”لالی“کہہ کر پکارتے تھے۔ دستاویزات میں بھی انکا نام”مراد خاتون“ہی ہے ۔
ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ میں اپنی پھوپھی کو دیکھ تو نہیں سکی کیونکہ انکا انتقال میری کم عمری میں ہی ہو چکا تھا لیکن ان کا ہم نام ہونے سے ہمیشہ انکی کچھ نہ کچھ باتیں لوگ بتاتے رہے۔ انکا غائبانہ ذکر ہمیشہ ہوتا رہا ۔شاید یہی وجہ تھی کہ میں والد کی چہیتی رہی۔ پڑھائی میں دلچسپی نے انہیں ہر دلعزیز بنا دیا۔ ہماری امی ہم بہنوں کا بھائیوں سے زیادہ خیال کرتی تھیں۔ جب میں اسٹوڈنٹ تھی تو ابو جہاں کہیں بھی نوکری کے سلسلے میں رہتے تھے، اس گاﺅں سے میرے لئے ملبوسات اور جیولری لایا کرتے تھے ۔ وہ میں بہت شوق سے استعمال کرتی تھی ۔ مجھے لگتا ہے کہ آج بھی میں اسی طرح کے روایتی ملبوسات اور جیولری اپنے استعمال میں رکھتی ہوں ۔ یہ بچپن کا ہی شوق ہے جومیری عادت میں شامل ہے ۔
ہم سب بھائی بہنوںنے یونیوسٹی تک تعلیم حاصل کی اور جاب بھی کی۔ حیدرآباد، سندھ ہمارا آبائی شہر ہے اس لئے وہاں کی ثقافتی چیزیں دل کو بھاتی ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مٹی سے محبت وہاں کی چیزوں سے بھی انسیت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
میں نے ”مدرستہ البنات“نامی گرلز اسکول سے سیکنڈ کلاس میں پاس کیا۔ 1968ءمیں ”زبیدہ کالج“ میں داخلہ ہوا ۔وہاں انکی دوستی’ ’ڈاکٹر پروین شاہ“ سے ہوئی اور یہ دوستی آج تک قائم ہے۔ کالج میں میری آئیڈیل ٹیچر ”مریم سلطانہ نوہانی ” تھیں ۔آپا سلطانہ ایک بہرین استاذہ ہونے کے علاوہ اسٹوڈنٹس کی بہتری کے لئے کام بھی کیا کرتی تھیں۔ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتی تھیں کہ جو خود تعلیم حاصل کریں، وہ دوسروں کو بھی تعلیم دیں۔ اس طرح معاشرے میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ملک ترقی کی منازل تیزی سے طے کرے گا۔جس طرح ہمارے گھروں میں بھائیوں کی عزت کرنے کے لئے بہنوں سے کہا جاتا ہے ،اسی طرح بھائیوں سے بھی کہا جانا چاہیے کہ وہ بہنوں کی عزت کریں۔ اس طرح گھر کے ماحول سے ہی مساوات کا سبق ملے گا ویسے بھی یہ ہماری عام دینی تعلیم ہے کہ ہر انسان برابر ہے۔ اگر کوئی زیادہ عزت دار ہے تو وہ صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور یہ بھی جان لینا چاہئے کہ جو لوگ مالک حقیقی سے ڈرنے والے ہوتے ہیں انہیں کسی کے برے سلوک سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ بھی سچ ہے کہ متقی انسان کی ہر کوئی عزت کرتا ہے چاہے وہ زبان سے کہے یا نہ کہے دل میں ایسے لوگوں کی قدر ضرور ہوتی ہے ۔
پروفیسر مراد خاتون نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں کم علمی کی وجہ سے لڑکیوں کی پیدائش پر زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کیاجاتاحالانکہ اس سلسلے میں ایک قانون بنایاجانا چاہئے کہ عورت کو تحفظ دیں انکی تعلیم کا سرکاری طور پر انتظام کریں اورتعلیم کے بعد انہیںروزگار مہیا کریں۔ لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح ہر میدان میں آزادی ملنی چاہئے کہ وہ اپنے بارے میں فیصلے کر سکیں، پڑھائی لکھائی سے متعلق وہ جو چاہیں ویسا ہی کریں تاکہ وہ اپنے علم سے استفادہ کر سکیںاور دوسروں کو بھی اس سے فائدہ پہنچائیں۔ انہیں کام کرنے کا موقع بھی دیا جانا چاہئے ۔ انکی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے اب وہ زمانے گئے جب لڑکیوں کو رات کے اندھیرے میں لال بیگ سے ڈرایا جاتا تھا اور انہیں یہ احساس ہوتا تھا کہ شاید دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ 
کینیڈا میں رہنے کا اتفاق ہوا تو بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہاں خواتین ہر سیکشن میں اپنی خدمات کی ادائیگی کرتی نظر آئیں اور انکی ترقی 
 کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ونیا کی محنتی اقوام میں سے ایک ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر مراد خاتون کا کہنا ہے کہ گھر کو صاف ستھرا رکھنے ،درست زبان استعمال کرنے، کفایت شعاری سے گھر کا خرچ چلانے، بچوں کو وقت دینے، انکی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے اور انکی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر انکی حوصلہ افزائی کرنے سے ایک بہترین ماحول تشکیل پائے گا جو بچوں کو خود اعتمادی سے معمورزندگی گزارنے کے قابل بنائے گا اور ان کے ممد و معاون ثابت ہو گا۔ یہی ریسرچ آسٹریلیا کے ایک ادارے کی بھی ہے جہاں ”ویمن ریسرچ“ پیپرز میں یہ نکات شامل کئے گئے ہیںکہ یہ تمام عوامل بچوں کی بہترین نگہداشت میں مدد کرتے ہیں۔ایسے بچوں کی تربیت بہترین ہوتی ہے اور آگے چل کر وہ اپنے ملک کے لئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹرمراد خاتون ”بی پی ڈبلو او“ کی جنرل سیکریٹری ہیں۔ اس عہدے پر انہیںاس ادارے کی صدر مریم سلطانہ نے فائز کیا ہے جنہیں سب آپا مریم کے نام سے پکارتے ہیں ۔وہ ہمیشہ اپنے لیکچر میں اسی بات کو دہراتی ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں ،دونوں کو اسلام کی تعلیمات عالی سے آگاہ کیا جانا چاہئے تاکہ وہ ایک اچھی تعلیم و تربیت کے حصول کے بعد خود اعتمادی سے زندگی میں آگے بڑھ سکیں اور ریاست کی خدمت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ 
پروفیسر مراد خاتون نے بتایا کہ یہ میرے لئے بہت اچھا آغاز بنا کہ آپا نے میرے فرسٹ ایئر کے مضامین میں اکنامکس ، اپنے ہاتھوں سے لکھا اور اس مضمون میں محنت کرنے کی ہدایت بھی کی۔ میں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا چنانچہ جب انٹر کا رزلٹ آیا تومیں نے پورے کالج میں ٹاپ کیا پھر آپا نے کہا کہ آنرز کرو۔ اس مرتبہ میں نے سندھ یونیورسٹی میں ٹاپ کیا اور 1974ءمیں سندھ یونیورسٹی میں اکنامکس ڈپارٹمنٹ میں لیکچرر کے طور پر جاب کا آغاز کر دیا۔
ہمارے ڈین اور چیئرمین پروفیسر الیاس احمد ابڑو صاحب تھے جن کے الفاظ میںزندگی بھر نہیں بھولوں گی۔انہوں نے کہا تھا کہ ”مراد خاتون، تم پہلی عورت ہو جو سندھ یونیورسٹی کے اکنامکس اور کامرس ڈپارٹمنٹ میں اسٹاف کے طور پر داخل ہو رہی ہو۔“بلا شبہ اس کامیابی پرمجھے فخر ہے اور یہ سب مالک حقیقی کا مجھ پرکرم ہے۔
محترمہ مراد خاتون نے اپنی زندگی کے دلچسپ موڑ کی بابت بھی بتایا کہ اسی آفس میں ڈاکٹر اقبال پنہور جو پروفیسر صاحبہ کے کلاس فیلو بھی رہے تھے، موجود تھے لیکن چونکہ ہمارے زمانے میں لڑکیاں اپنے ہم جماعت سے بھی زیادہ بات چیت نہیں کرتی تھیں تو ہماری بھی کبھی آپس میں بات چیت نہیں ہوئی تھی اور اب ہم دونوں ایک ہی جگہ جاب کے سلسلے میں موجود تھے۔ اقبال ساحب نے ہمارے گھر رشتہ بھجوادیا مگر ہمارے والدین نے انکار کر دیا کیونکہ ہم لوگ پٹھان فیملی سے ہیں تو سندھ میں رہنے سہنے کے باوجود اپنی روایات پر قائم تھے لیکن اقبال صاحب نے تو تہیہ کر رکھا تھاکہ وہ اسی گھر میں شادی کریں گے اور بالآخر ایسا ہی ہوا، ایک سال کے بعد یہ رشتہ قبول کر لیا گیا۔ ورنہ ہمارے خاندان میں بہت قدیم رواج ہے کہ غیروں میں رشتہ نہیں جوڑتے، شادی نہیں کرتے مگر وہی بات کہ رب کریم نے جہاں لکھ دیا تھا، وہیں شادی ہوئی چنانچہ 1977ءمیں منگنی ہوگئی اور اس کے ایک سال کے بعد شادی خیرو عافیت سے انجام پائی ۔
شادی کے وقت اقبال صاحب کینیڈا میں ”اسٹڈی لیو“ پر تھے اور ونڈسر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔انہیں فیملی ویزا مل گیا۔ ہماری سب سے بڑی صاحب زادی سبرینا نے کینیڈا میںہی آنکھ کھولی پھر انکی بہن ”ریحا “ آپہنچیں اور ان کے بعد انکے بھائی محمد علی پاشا کی آمد ہوئی اور سب سے چھوٹی شہزادی ”فضہ“ نے گویا کورم پورا کر دیا۔
محترمہ مراد خاتون نے اپنی بے انتہاءمصروفیات کے باوجود تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا اور سندھ یونیورسٹی سے2003ء میں پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا ” عورت کا کردار معاشی اور معاشرتی ترقی میں کیا ہے؟“ اس مقالے میں انہوں نے یہ بات سمجھائی کہ پہلے عورت کو بہترین تعلیم سے آراستہ کیا جائے پھر ذمہ داری سونپ کر بہترین نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
گھر کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔ اس طرح ایک مربوط اور جامع معاشرتی نظام تشکیل پاسکتا ہے ۔
”ایس او ایس“ جامشورو میں ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنے لوگوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ بچوں کے عام مسائل کو بھی حل کرتا ہے۔ پروفیسر صاحبہ اس کی بانی رکن ہیںجبکہ جاوید جبار اس آرگنائزیشن کے چیئرمین ہیں۔2007ءمیں ڈاکٹر اقبال، سندھ یونیورسٹی سے بطور پرو وائس چانسلر ریٹائر ہوئے اور اب بحریہ یونیورسٹی کراچی میں ڈین ہیں اور انکا تعلیمی ریکارڈ اور تجربہ تو اپنی جگہ بہترین ہے لیکن وہ اپنی اہلیہ کی تعلیم کے حصول میں دلچسپی اور عام لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی خواہش کا بہت احترام کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ خود بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور وہ ایک ادارے کی سربراہی کی ذمہ داری بھی احسن طور پر پوری کر رہی ہیں۔ انکا مشن ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت تعلیم کے حصول میں ہر ممکن سہولت پائے کیونکہ تعلیم یافتہ ماں ایک پوری نسل کی بہترین تربیت کر سکتی ہے۔
پروفیسر صاحبہ پرسٹن یونیورسٹی کراچی کی ہیڈ آف داڈپاٹمنٹ ہیں ۔2012ءمیں وہ سندھ یو نیورسٹی سے ریٹائر ہوگئی تھیں۔ڈاکٹر مراد خاتون ایک محنتی،باہمت اور ولولہ انگیز شخصیت ہیں۔ وقت، ماحول اور مسائل سے نہیں گھبراتیں بلکہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی جرا¿ت رکھتی ہیں اور یہی خوبیاں وہ اپنی آنے والی نسل کی خواتین میں دیکھنا چاہتی ہیں کہ مفید علم حاصل کرو اور عزت پاﺅ۔
محترمہ مراد خاتون اپنے شوہر اقبال صاحب کی ستائش کرنے میں کنجوسی نہیں کرتیں بلکہ وہ سمجھتی ہیں کہ جب آدمی ایک فیصلہ کرے تو سوچ سمجھ کر کرے لیکن جب فیصلہ کر لے تو اسے بار بار نہ بدلے اور یہی خوبی شخصیت کی پہچان بنتی ہے۔ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، سنگا پور، ملیشیا اور سعودی عرب کا دورہ کرنے والی مراد خاتون صاحبہ کو اپنا ملک بہت بھاتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وطن کواللہ کریم نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کاشمار کرنا ممکن نہیں۔ 
 

شیئر: