Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہائی برڈ وار فیئر

***احمد آزاد ، فیصل آباد***
فرانسیسی سپہ سالا رنپولین بونا پارٹ کا کہنا تھا کہ Lose the battle , win the war ۔ آج کل کا دور جہاں جدید سے جدید آلات حرب لے کر آیا ہے وہیں طرز جنگ بھی تبدیل ہوچکی ہے ۔پہلے جنگ دو مسلح افواج کے درمیان ہوتی تھیں اب جنگیں دوقوموں ،دو ملکوں اور دوتہذیبوں کے درمیان ہورہی ہیں ۔اگرچہ یہ طرز جنگ پہلے بھی موجود تھا اور صلیبی افواج و سپہ سالاروں نے اسی طرز کی جنگ مسلمانوں کے خلاف لڑی ہے لیکن اس باریہ جنگ اپنے مفہوم میں خاصی پیچیدگی لیے ہوئے ہے ۔فرسٹ،سیکنڈ ،تھرڈ اور فورتھ جنریشن وارفیئر کے بعد آج کی دنیا ففتھ جنریشن وارفیئر کا سامنا کررہی ہے ۔ہائی برڈ وارفیئر ہاٹ وار فیئر سے زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے۔ ہاٹ وارفیئر (گرم انداز جنگ وجدل )میں تو دو تربیت یافتہ اور منصوبہ سازی سے لیس افواج آمنے سامنے ہوتی ہیں اور اپنی تربیت کے مطابق حالات وواقعات کو ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ طریقہ جنگ تو عرصہ ہوا پُرانا ہوچکا ۔اس کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئی وہ علاقائی جنگیں تھیں اور ان کا نقطہ نظرجوہری ممالک کی عالمی حکمرانی کا قیام تھا ۔آپ انہیں پراکسی جنگیں کہہ سکتے ہیں جو کہ بظاہر دو ملکوں کے مابین تھیںلیکن ان میں طاقت کا توازن نہ تھا اور ان جنگوں سے ترقی یافتہ ممالک کے مفاد وابستہ تھے ۔ان ہی بعض جنگوں میں بعض فریقین غیر مقامی تھے جو کسی دوسرے ملک کی سرزمین پراپنا اسلحہ و تربیت کو پرکھنے کے لیے چڑھ دوڑے اور اس غریب و ناچار ملک کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیا ۔آج کا دور ہا ئی برڈ وارفیئر کا دور ہے۔ہائی برڈ وارفیئرمیں بظاہر نظر آنے والی متحارب قوتوں سے ہٹ کر بھی کچھ قوتیں ملوث ہوتی ہیں جو کہ نظر آنے والی قوتوں سے زیادہ متحرک اور موثر ہوتی ہیں اور یہ قوتیں نظر نہیں آتیں اور یہی نظر نہ آنے والی قوتیں جنگوں کی ہار جیت کے فیصلے کرتی ہیں ۔یہی نظر نہ آنے والی چیز /قوت جنگوں کی طرز کو ہائی برڈ وارفیئر میں لاکھڑا کرتی ہے ۔نظر نہ آنا جہاں ایک صفت ہے وہیں اس سے ہٹ کر بھی کچھ پہلو ہیں جو اسے مزید پیچیدہ و خطرنا ک بنادیتے ہیں ۔سب سے زیادہ مہلک اورخطرناک اس جنگ میں اقتصادیات کا معاملہ ہے اور اس کے بعد نفسیات کا مسئلہ ہے ۔باقاعدہ افواج،اسپیشل فوج،بے قاعدہ فوج سے ہٹ کر ہائی برڈ وارفیئر میں اقتصادی جنگ،سفارت کاری،غلط معلومات کو پھیلانا، سائبر حملے، علاقوں میں بدامنی پھیلانے جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں ۔ماضی میں اگر کسی فوج کی سپلائی لائن کاٹ دی جاتی تھی تو وہ بے دست و پا ہو کر آخر کار ہتھیار ڈال دیتی تھی جس کی نئی شکل اب اقتصادی جنگ ہے ۔جب ایک سپاہی کو کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا ،رہنے کو مکان اور لڑنے کے لیے ہتھیار ہی نہ ملیں تو وہ لڑے گا کیسے اور اگر کوئی سرپھرا لڑ بھی جائے تو کب تک دشمن کے ہتھیاروں کے سامنے ٹک پائے گا ؟پاکستان کے دشمن اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی مالی امداد بندکرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اردگرد کا ماحول ناقابل برداشت کرکے اس کی افواج سے لڑنے کا حوصلہ چھین لینا چاہتا تھا۔ پھر نفسیات کی جنگ میںبھی دشمن اپنے حربے استعمال کررہا ہے ۔غلط اورجعلی خبریں پھیلاکر پاک فوج کا مورال ڈائون کرنے اور قوم کا ان پر سے اعتماد ختم کرنے کی کوشش ماضی قریب و بعید میں بھی کی جاتی رہی ہے اور اب بھی یہ چیز عروج پر ہے۔چند ایک غداران قوم و ملت کے ہاتھوں ملک کا امیج خراب کروانے کی کوشش اور منظور پشتین جیسے گماشتے کو سامنے رکھ کر اپنے مفادات کو پورا کرنے کا حربہ بھی اسی ہائی برڈ وارفیئر کا اک حصہ ہے ۔منظور پشتین کے ساتھ جڑے ہوئے لوگ کسی دوسرے ملک کے سانحے یا کسی اور وقت و جگہ کی تصاویر کو لے کر اپنے الفاظ میں پھیلاتے ہیں اور کم علم وکم فہم لوگوں کے ذہنوں کی برین واشنگ کرتے ہیں اس چیز کو ہم غلط معلومات کو پھیلانا کہہ سکتے ہیں ۔امریکا نے جب ملامنصور پر ڈرون حملہ کیا تھا تو اس کے ساتھ ہی ان کی تنظیم سے جڑے لوگوںکے سوشل اکاونٹس و ویب سائٹس کو ہیک کرلیا گیا تھا تاکہ وہ اس خبر کو لے کر معلومات نہ عوام کو دے سکیں ۔مشہور زمانہ ممبئی حملوں کو کون بھول سکتا ہے کہ جس میں اجمل قصاب نامی ایک بندہ پکڑا گیا تھا جس کے متعلق اس وقت کچھ سینیئر پاکستانی صحافیوں تک نے دعویٰ کردیا تھا کہ وہ پاکستانی ہے لیکن ابھی چند دن قبل ہی اس بندے کا ڈراپ سین ہوا ہے جب ہند میں اس کا ڈومیسائل بنایا گیا تھا۔اس ڈراپ سین اور دیگر شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممبئی حملوں میں ہند یا پھر ہند کے اندر کی قوتیں ملوث تھیں لیکن اس سارے کا ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا اور اس قدر شدید پروپیگنڈہ کیا گیا کہ پاکستان کو چند قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ الغرض یہ سب غلط پروپیگنڈہ ہے جس کا استعمال امریکا ،روس،چین اور دیگر ممالک اپنے اپنے حالات کے مطابق کرتے رہتے ہیں۔
پاکستانی افواج نے طرز جنگ کی بدلتی ہوئی نوعیت کا ادراک کرتے ہوئے اپنے قرب وجوار میں ہونے والے واقعات کو دیکھ کر سمجھ کر اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے تربیت کی ہے ۔پاکستانی قوم کی نوجوان نسل بھی سوشل میڈیاپر اس حوالے سے کافی متحرک نظر آتی ہے ۔اپنے طور پر لوگوں نے سوشل میڈیا پر چھوٹے بڑے گروپ بنائے ہوئے ہیں جو ملکی سا  لمیت کے حوالے سے ہمہ وقت مصروف نظر آتے ہیں اورتحریک طالبا ن پاکستان اور منظور پشتین جیسے لوگوں سے سوشل میڈیا پر بخوبی نمٹ رہے ہیں ۔ابھی پچھلے دنوں جب ایس پی طاہر داوڑ شہید کے حوالے سے پی ٹی ایم والوں نے ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی تو پاکستانی نوجوان نسل نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا جس میں ایک بڑی تعداد پختونوں کی تھی ۔
 

شیئر: