Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معرکہ

***جاوید اقبال ***
عجب شخص تھا۔ اپنی موٹی سرخ آنکھوں سے بڑی خاموشی سے گردوپیش اور طلباء کا جائزہ لیتا رہتا۔ خاموش تھا صرف اسی وقت انتہائی مختصر جملے میں جواب دیتا جب اس سے سوال کیا جاتا۔ بہت جلد ہم سب اس کے سکوت کے عادی ہوگئے۔ میں جامعہ الملک سعود میں انگریزی کی تدریس کرتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ جامعہ الامام میں کلیئہ الغات و ترجمہ کے وائس ڈین ڈاکٹر عبدالعزیز نوفل سے ایک دن ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر نوفل اپنے زمانہ طالبعلمی میں انگریزی روزنامے ریاض ڈیلی سے بطور اپرنٹس منسلک تھے۔ میں چونکہ اس روزنامے کیلئے ہر ہفتے ایک سفیر کا انٹرویو کرتا تھا اس لئے چیف ایڈیٹر طلعت وفا نے عبدالعزیز نوفل کی تحریر کی اصلاح کی ذمہ داری مجھے سونپ دی۔ 1991ء سے 1993ء تک کے 2 برس یہ نوجوان سعودی میرے زیر تربیت رہا۔ بعد کے برسوں میں اس نے امریکہ میں انگریزی لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی اور جامعہ الامام کے آشیانے میں آن بسا۔ پھر 2011ء میں ہماری اتفاقاً ملاقات ہوئی اور اس نے میری جامعہ سے بات چیت کر کے مجھے ایک سال کے لئے عاریتاً لے لیا۔ میڈیکل کالج میں 60 طلبا تھے اور 6 اساتذہ۔ 4 کا تعلق انگلستان اور امریکہ سے تھا۔ پانچواں میں تھا اور چھٹا وہ عجیب شخص۔ مجھے سربراہ مقرر کردیا گیا۔ خاموش طبع آدمی ڈاکٹر شمس الاسلام تھا۔ آسٹریلوی شہری تھا مگر پیدائش مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ میں ہوئی تھی۔ ایک دن اس کی خاموشی کا سبب دریافت کرلیا۔ اس کی موٹی آنکھوں کی سرخی گہری ہوگئی۔ پھر ان میں نمی تیری۔ جیب سے رومال نکال کر اس نے اس نمی کو کپڑے میں جذب کیا۔پھر کہا ’’میں مشرقی پاکستان کی مغربی حصے سے علیحدگی کا چشم دید گواہ ہوں۔ 1970ء کے آخری مہینوں میں جب انتخابات ہوئے ہمیں واضح اور بے مثال فتح نصیب ہوئی۔ مکتی باہنی کی فوجی تربیت کے لئے ہندوستانی فوج ایک ڈیڑھ برس پہلے ہی داخل ہوچکی تھی۔ پاکستانی فوج تقریباً محصور ہوچکی تھی اور ہندوستانی فوجی گاڑیاں، ٹرکوں پر دندناتی پھرتی تھیں۔ پھر میں نے وہ وحشیانہ واقعہ دیکھا جس نے میری زندگی کو نیار رخ دے دیا۔ ایک دن ہم 4 طلباء شہر سے باہر دھان کے ایک کھیت کے کنارے بیٹھے تھے۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ کھیتوں میں کام کرنے والی بنگالی عورتوں کا ایک گروہ ہمارے پاس سے گزرتا چلا گیا۔ ابھی وہ چند گز ہی دور گیا ہوگا کہ دوسری طرف سے فوج کی ایک گاڑی آتی نظر آئی۔ عورتوں کے پاس آکر وہ رکی اور اس میں ایک درجن کے قریب فوجی تیزی سے اترے۔ وہ سب مسلح تھے۔ انہوں نے وقت ضائع کیے بغیر عورتوں کے گرد گھیرا بنایا۔ بالاخر شیطانی کھیل اختتام کو پہنچا اور پھر میری زندگی کی خوفناک ترین حقیقت مجھ پر طلوع ہوئی۔ وہ انتہائی وحشیانہ اور فخریہ انداز میں اپنے کارنامے پر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے لیکن میں سن ہوگیا۔ ان میں کوئی سنگھ تھا تو کوئی رام، کوئی نارائن تھا تو کوئی ہونڈا کوئی محمد یا حسین یا علی یا حسن نہیں تھا تو یہ ہندوستانی فوجی تھے جن کے ہاتھ کسی معرکے میں پاکستانی وردیاں اور گاڑی لگ گئی تھی اور انہوں نے مقامی بنگالیوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے انسانیت کی حدود پار کر لی تھیں۔ تو میں نے اور میرے ساتھیوں نے سوچا کہ بنگلہ دیش کون بنارہا تھا؟ بنگلہ بندھو شیخ مجیب یا اندرا گاندھی؟ تو اندر سے آواز اٹھی شمس الاسلام! تم نے ہی تو پاکستان بنایا تھا اور اپنی ہی بربادی کی کنجی اپنے ازلی دشمن کے حوالے کررہے ہو؟ اس کے بعد متعدد ایسے ہی واقعات ہوئے۔ ‘‘ ڈاکٹر شمس الاسلام کے لرزتے لبوں پر آواز مری اور کمرے میں سکوت چھا گیا۔ پھر میرا سوال تھا۔ ’’تم لوگوں نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی؟ مجیب الرحمان کو خبر نہیں کی؟‘‘ اس کی آنکھوں کی نمی میں اضافہ ہوا اور وہ بولا ’’آواز بلند کی لیکن مکتی باہنی نے ہمیں خاموش کرادیا اور 1970ء کے اواخر میں تو کھیل شیخ مجیب الرحمان کے ہاتھ سے بھی نکل چکا تھا۔ اندرا گاندھی کی انگلیاں اس کٹھ پتلی کے تار ہلارہی تھیں۔وہ پھر خاموش ہوگیا اور وہ جنرل عثمانی اور میجر ضیاء الرحمان؟ انہوں نے بھی تو متحدہ پاکستان کے خلاف بغاوت کردی تھی اور اپنے ہی ساتھی پاکستانی فوجیوں اور ان کے خاندانوں کو زندہ جلادیا تھا! یہ کیسے ہوا؟‘‘ میرا سوال تھا۔
’’میں سمجھاتا ہوں۔‘‘ وہ بولا ’’سارے حقائق بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہم پر آشکار ہوئے تھے۔ ضیاء الرحمان اور عثمانی کو احکام مل چکے تھے کہ انہوں نے بلاتردد اپنے ہی مادر ادارے اور اپنے پاکستانی ساتھیوں کا صفایا کرنا ہے ورنہ انہیں گولی سے اڑا دیا جائے گا۔ میں اور میرے ساتھیوں نے تو صرف ایک وحشیانہ واقعہ دیکھا تھا اور آنکھیں کھل گئی تھیں لیکن یقیناً ہندوستانی فوجیوں نے پاکستانی وردیاں پہن کر ہمارے دیہات میں قتل عام کیا تھا۔ ان کے جرائم پرمکتی باہنی پردہ ڈالنے کو موجود تھی۔‘‘ میں نے سوال کردیا ’’پھر تم اور تمہارے ساتھیوں نے کیا کیا؟ وہ خاموش ہوگیا۔ پھر بولا ’’جب ہر طرف خون ہو، گلی کوچے لاشوں سے اٹے ہوں، گدھ اور جنگلی جانور بھی لاشیں نوچ نوچ کر تھک چکے ہوں تو قوم پر ایک ہسٹریا کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ مشرقی پاکستان کی موت خارجی طاقتیں لے کر آئیں۔ جب جنرل نیازی نے اپنا ریوالور دشمن کے حوالے کیا تو وہاں موقع پر تو بنگالی پاگل پن میں ہسٹریائی انداز میں پاکستان کو گالیاں دے رہے تھے لیکن پلٹن میدان سے ہٹ کر بوڑھے بنگالی اس المیے پر چیخ چیخ کر بین کررہے تھے۔ مسجد بیت المکرم کے میناروں کے سائے میں ہمارے بزرگ سر پٹک رہے تھے۔ ہم نے بنگلہ دیش نہیں بنایا تھا بنگلہ دیش تو ہندوستان نے بنایا تھا۔ ہم نے تو اپنا پاکستان گنوانے کا معرکہ سر کیا تھا۔ 
 

شیئر: