محمد مبشر انوار
قارئین کرام !آج دل قند مکرر پر مائل ہے اور ستمبر2011کی سعودی عرب کے مقامی اردو اخبار میں شائع ایک تحریر آپ کی نذرکر رہا ہوں ۔
’’9/11کے بعد عالمی سطح پر بہت سی اہم تبدیلیاں رو نما ہوئی اورامریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے عالمی برادری میں ابھر کر سامنے آیا،اپنی اس حیثیت میں امریکی اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے لگے۔ اس ضمن میں ان کی بری نظریں اسلامی دنیا کی طرف اٹھیں اور انہوں نے تہذیب کے نام پر اپنے لئے ایک بڑا دشمن تخلیق کر لیا یا پہلے سے موجود دشمن کے خلاف کھلے بندوں بر سر پیکار ہو گئے ۔ مفادات کے اس دور میں جہاں امریکہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہر طرح کی جارحیت پر اترا وہیں مسلم ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر ہر ملک اپنے مفادات کے تحفظ کا لائحہ عمل طے کرتا نظر آیا۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستان کی تھی ،جہاں ایک آمر مسند اقتدار پر جلوہ افروز تھا اور اس سانحے کے فوری بعد فقط اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر ایک امریکی فون کے سامنے ڈھیر ہو گیامگر افسوس صد افسوس! کہ ایک طرف قومی مفادات تھے تو دوسری طرف فقط اپنا اقتدار ۔اس سانحے کی آڑ میں امریکہ نے ایک طرف عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو دوسری طرف افغانستان میں موجود القاعدہ کے خلاف براہ راست نیٹو افواج کی کارروائی شروع کر دی۔پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے وجہ سے امریکہ کیلئے نا گزیر ہو گیا اور پاکستان کے ساتھ نئے رومانٹک دور کا آغاز ہوا اور اس مرتبہ امریکی عہدیداروں نے ماضی کے بر عکس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو پرخلوص رکھنے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ اسی صورت میں وفا ہوتا اگر پاکستان امریکی مفادات کا بھرپور خیال رکھتا لیکن افسوس ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکمرانوں نے ذاتی مفادات کے سامنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اعتماد کی فضا کو سخت مجروح کیا۔ یہاں یہ امر واضح رہنا چاہئے کہ امریکہ اس مرتبہ بھی اپنے مفادات کے حصول کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ جاتا ،جیسے اس نے ہمیشہ کیا ، جس کی حالیہ مثال افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے بعد کی رہی اور کل کے مجاہدین کے ہاتھوں مہلک اسلحے کے ہوتے ہوئے یہی مجاہدین آج کے دہشتگرد قرار پائے۔ انہی میں سے ایک گروہ جلال الدین حقانی کا ہے، جس کے متعلق امریکی تواتر سے یہ کہہ رہے ہیں بلکہ الزام لگا رہے ہیں کہ دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ میں پاکستان کے اہم ادارے حقانی گروپ کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں کامیابی دور ہو تی جا رہی ہے جو درحقیقت امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کا ایک جواز ہو سکتا ہے تو دوسری طرف ان امریکی عزائم کی تکمیل کی طرف قدم ہو گا ،جو امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیخلاف رکھتا ہے۔اس نازک وقت میں مختلف نقطہ نظر موضوع بحث ہیں کہ آیا امریکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے خلاف محدود جارحیت کر سکتا ہے یا وہ ان الزامات کی بنیاد پر صرف پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ کیا پس پردہ محرکات ہیں، کیا مفادات ہیں جن کی خاطر اتنی سخت زبان استعمال ہو رہی ہے کیونکہ ایسے حالات میں بالعموم جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں۔اگر امریکی داخلی صورتحال کو دیکھیں تو ممکن ہے کہ یہ سب آئندہ سال ہونے والے انتخابات کی تیاری ہو ، تاکہ امریکی افواج کو واپس بلا کرعوام میں پذیرائی حاصل کی جائے اور اگر امریکہ کے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تحفظات کو نظر میں رکھیں تو اس امر کا بھر پور احتمال ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان کے خلاف کوئی بھی انتہائی قدم اٹھالے کیونکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کسی بھی صورت غیر مسلم (بظاہر دوستوں یا دشمنوں )کے لئے قابل قبول نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ محدود جارحیت کا جواز حقانی گروپ کی کارروائیوں کو قرار دے دیا جائے اوریہ وہی حقانی گروپ ہے جس کو ایک زمانے میں بھرپور امریکی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔اگر امریکی دوسرے نقطہ نظر پر عمل پیرا ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شمال مغربی سرحد پر اگر نیٹو افواج ہوں گی تو مشرقی سرحد پر ہندکسی صورت میں خاموش نہیں رہے گا اور اس صورت کو نعمت غیر متبرکہ خیال کرتے ہوئے ، اکھنڈ ہند کا خواب پورا کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ ان حالات میں خطے میں طاقت کا توازن کیا صورتحال اختیار کرے گا اور کیا یہ صورتحال چین کیلئے قابل قبول ہو گی؟گو کہ چین نے ہر طرح کے حالات میں پاکستان کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا ہے لیکن کیا ایک طرف نیٹو افواج کی جارحیت اور دوسری طرف ہندوستانی جارحیت کے سامنے چین 65کی طرح ہند سے کوئی چھیڑ چھاڑ شروع کر پائے گا؟آج کی صورتحال میں چین عالمی اداروں میں تو پاکستان کی حمایت کرے گا، پاکستان کے خلاف کسی بھی اقدام کی مخالفت کرے گا لیکن اگر اقدام ہو گیا تب چین کا کیا کردار ہو گا؟ کیا وہ ہماری غلطیوں کا خمیازہ بھگتے گا؟ یقینی طور پر نہیں اور ایسی حالت میں پاکستان کی حالت ایک ایسے سینڈوچ کی ہو گی، جس کو شمال مغربی سرحد کی طرف سے نیٹو افواج کا سامنا ہو گا تو مشرقی سرحد پر ہندوستانی جارحیت ہو گی۔ بہتر تو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کو کسی بھی طرح ٹھنڈا کیا جائے اور مستقبل میں ایسی پالیسی اپنائی جائے کہ پاکستان اس قسم کی مشکل صورتحال کا شکار نہ ہو۔ ‘‘الحمد للہ ،ثم الحمد للہ،پاکستان اور افواج پاکستان نے جس طرح شمال مغربی سرحد پر باڑ لگا کر اوردفاع میں ہندوستانی جارحیت کے دانت کھٹے کئے ہیں،اس سے اطمینان ہے کہ پاکستان کسی طرح بھی سینڈوچ نہیں بن سکتا،ان شاء اللہ۔پاکستان پائندہ باد