Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صومالی لینڈ سے تجارت کریں

خلیل احمد نینی تال والا
    2007ء میں ہمارے ایک کاروباری دوست نے جو صومالی لینڈ کے باشندے تھے اور دبئی میں بھی کاروبار کرتے تھے، ہم کو صومالی لینڈ آنے کی دعوت دی۔ دراصل وہ صومالی لینڈ اور پاکستان کے درمیان اپنا کاروبار بڑھانا چاہتے تھے اور پاکستان میں صومالی لینڈ کیلئے اعزاز ی قونصل جنرل کی تلاش تھی۔ اس وجہ سے میں نے اپنے صاحبزادے سلمان خلیل کو بھی ساتھ سفرمیں شامل کیا۔ صومالی لینڈ آج سے 27سال قبل صومالیہ کو تقسیم کر کے 2حصو ں میں10بارہ سال کی آپس کی جنگوں کی وجہ سے صومالیہ اور صومالی لینڈ میں بٹ گیا تھا۔غربت زیادہ تھی۔ جنگوں سے آپس کے قبائل میں بہت مرد مارے گئے تھے۔ لاتعدادبچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوچکی تھیں۔ دونوں طرف کے قبائلی سرداروں نے از خود اس مسئلے کو حل کر کے امن قائم کیا۔ صومالیہ تو خود کفیل تھا مگر صومالی لینڈ کو کچھ مسلمان ملکوں سے اور یو این ای سی ایف سے امداد ملتی تھی۔ غربت کے باوجود صومالی لینڈ میں امن و امان تھا۔ اگر چہ صومالیہ نے آج تک صومالی لینڈ کو یو این او کا ممبر نہیں بننے دیا تاکہ وہ غربت کا شکار رہے ۔
    خیر ہم باپ بیٹے 12 سال قبل دبئی سے رکتے رکاتے صومالی لینڈ کے سب سے بڑے شہر’’ہرگیسیا‘‘ پہنچے۔ ایئر پورٹ پر ہمارے دوست محمد عثمان عابدی لینے آئے۔ ان دنوں پاکستان اور صومالی لینڈ کے درمیان ویزا ایئر پورٹ پر ملتا تھا۔ صومالی لینڈ کی آمدنی کا ایک ذریعہ ٹورسٹوں سے وصول کیا جاتا تھا۔ہرگیسیابہت چھوٹا شہر، چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ، معمولی ایئر پورٹ ،چند چھوٹی گاڑیوں اور پرانی بسوں سے سفر کیا جاتا تھا۔صرف ایک 2 اسٹار ہوٹل ایئر پورٹ پر تھا اور2 تین گیسٹ ہائوس تھے جس میں سے ایک ہمارے میزبان کا بھی تھا۔ اس میں ہمیں ٹھہرا یاگیا۔ صومالی لینڈ میںزیادہ تر اونٹ اور بھیڑکا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے۔ سبزیاں غریب غرباء کھاتے تھے۔ پورے شہر میں کچے پکے مکانات تھے۔ ہر قسم کی منشیات پر پابندی تھی البتہ مقامی باشندے ایک خاص قسم کی گھاس نما ڈندیاں جس کو ’’کاڈھ ‘‘کہتے ہیں، اس کو کھانے کی اجازت تھی جو صرف خواتین فروخت کرسکتی تھیں۔ دوسرے دن اس چھوٹے شہر کی مین مارکیٹ گئے۔ وہاں یہی کرنسی ،کارڈ اور دیگر سبزیاں ،کپڑے ،جوتے وغیرہ سڑکوں پر ٹھیلوں پر مرد اور خواتین دونوں فروخت کررہے تھے ۔مقامی کرنسی اور ڈالرز میں لین دین ہورہاتھا ،مسجدوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ بازار میں بھیڑ بھاڑ بھی تھی۔ غیر ملکی اور صومالی باشندے خرید و فروخت میں لگے ہوئے تھے ۔ہم نے دیکھا کہ مسجدوں سے اذان کی آوازیں بلند ہوئیں تو تمام ٹھیلوں اور چھوٹے چھوٹے کیبن والوں نے دروازے بند کر کے ٹھیلوں پر کپڑا ڈال کرمسجدو ں کا رخ کیا ۔بہت تعجب ہو ا۔نہ تالا ڈالا، نہ ٹھیلے پر حفاظتی اقدام کیا۔ اُن دنوںہرگیسیامیں حکومت کی جانب سے بجلی،گیس کاکوئی بندوبست نہیں تھا۔ ٹھیکے پر جنریٹر سے بجلی خریدی جاتی تھی۔ کھانے پینے کا سامان زیادہ تر دبئی سے سمندری جہازوں سے لایا جاتا تھا۔ دوسرے دن ہمارے میزبان نے صومالی وزراء سے ملوایا ۔بہت سادہ لباس، صرف ایک لنگی اور قمیض سب پہنے ہوئے تھے جس میںہر گیسیاکا گورنربھی خود معمولی گاڑی میں ہم سے ملنے آیا تھا ۔رات صومالی لینڈ کے صدر نے کھانے کی دعوت دی۔ایک 2000گز پر معمولی سا بنا مکان جس میں نیچے ان کا صدارتی دفتر اور اوپر رہائش تھی ،کچے پکے فرش کی تعمیر ۔ اس صدر کی سادگی دیکھ کر دل بہت خوش ہو ا ۔ہم ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کررہے تھے تو ایک شخص نے آکر دروازہ کھٹکھٹا کر کھانالگنے کی اطلاع دی۔کھانے کی میز پر صرف ایک ڈش بھیڑ کا گوشت ،چاول، سلاد،فروٹ اور کھیر نما میٹھا تھا۔ اتنی سادگی سے اس صدر نے کہاکہ ہم آپ کی خاطر تواضع اس سے زیادہ نہیں کرسکتے۔ 10بجے رات کرائے کی بجلی چلی جائیگی لہٰذا جلدی کھانا تناول فرمائیں ۔دوسرے دن صدر نے اپنے فارن منسٹر سے مشورہ کر کے ہما رے صاحبزاد ے کو آنریری صومالی لینڈ کا قونصل جنرل بنادیا مگر چونکہ یو این او نے ابھی تک اس ملک کو تسلیم نہیں کیا تھاتو سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوسکے ۔تیسر ے دن ہمارے میزبان ایک بہت بڑے گھنے جنگل میں لے گئے جو میلوںپرپھیلا ہواتھا ۔ہم نے دیکھا ،جابجا بوریاں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم نے پوچھا یہ کس کی بوریاں ہیں۔ اس نے بتایاکہ اس جنگل میں بھیڑ بکریاں گائے اونٹ پالے جاتے ہیں ۔رات کو ان کا دودھ نکال کر راستے میں رکھ دیاجاتا ہے جو شہر کے دکان دار لے جاتے ہیں اور دوسرے دن اس کے عوض جو چیزیں کھانے پینے کی درکار ہوتی ہیں، ان دودھ کے برتنوں کے ساتھ چٹ لگا دی جاتی ہے وہ مہیا ہوجاتی ہیں ۔ہر ہفتے لین دین کا حساب کرلیا جاتا ہے۔ ہم نے پوچھا یہ لاوارثوں کی طرح پڑی ہوئی بوریاں، یہ دودھ کے برتن چوری نہیں ہوتے؟ انہوں نے کہا کہ آج تک ایسا نہیں ہوا ۔برس ہا برس سے یہ لین دین چل رہا ہے ۔اتنا امن وامان اورعوام کی  سادگی دیکھ کر خوشی ہوئی۔
    اتنا مفہوم لکھنے کا مقصدیہ ہے کہ پچھلے ماہ 12 سال کے بعد دوبارہ ہم باپ بیٹے ہمارے میزبان کی دعوت پر گئے تو یقین نہیںآیا، ان12 سالوں میں صومالی لینڈ کی کایا پلٹ چکی تھی ۔وجہ ان کی بنجر زمینوں میں تیل اور پہاڑوں میں سونا ،تانبہ ہر قسم کے ہیرے جواہرات کوئلہ معدنیات ہیں جن کی بدولت صومالی لینڈ میں آج بھی اسی طرح مرد و خواتین اپنی دکانوں، ٹھیلوں، مارکیٹوں میں کرنسی اور اب سونے کے زیوارت ہیرے وغیرہ اسی طرح خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ کوئی دہشت گردی،داعش، شباب تنظیمیں نام کوبھی نہیں ۔اسی طرح اذان کی آواز پر دکانیں اور ٹھیلے بند ہوتے ہیں ۔عالی شان عمارتیں ،5اسٹار ہوٹلز، لمبی لمبی لینڈ کروزر زکی بھرمار، قیمتی مکانات، صدر اور وزراء کیلئے لائن سے بنے لمبے لمبے باغات اور بنگلے ،خوش اخلاقی بھی عوام اور حکومتی لوگوں میں اسی طرح دیکھی۔سپر مارکیٹس اور بڑے بڑے مالز، لوگوں کے پاس دولت کی فراوانی ،اس اسلامی ریاست کا الگ نمونہ پیش کررہی تھی۔ وہ امن وامان کی فضا ،وہی وزراء ہمیں سادگی سے ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سے سفارتی تعلقات قائم ہوں اور دونوں ممالک مل کر ان سے لیں دین کریں اور اب یو این او بھی صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے والی ہے۔ پڑوسی اور افریقی ممالک بشمول یو اے ای ،ترکی،سعودیہ بھی اس کو تسلیم کرچکی ہیں اور صومالی لینڈ میں ان کے سفارتخانے بھی کھل چکے ہیں۔ پاکستان کو بھی چاہئے کے صومالی لینڈ کو تسلیم کرکے تجارتی راستے کھولے۔ دونوں ملکوں کا اس میں فائدہ ہے ۔ہندوستانی صنعتکار ان سے تجارت شروع کرچکے ہیں۔ دنیا بھر سے صنعتکار صومالی لینڈ سے تانبہ،پیتل اور معدنیات خرید رہے ہیں۔پاکستانی صنعتکاروںکو چاہئے کہ وہ بھی صومالی لینڈ کا دورہ کریں اور اس نئی منڈی سے فائدہ اٹھائیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -  - -بابری مسجد اور ثالثی پھر بھی بات نہ بنی تو ؟

شیئر: