Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تھالر سے ڈالر تک، آسمانوں کو چھوتی امریکی کرنسی کی کہانی

پنجابی کے معروف کامیڈین ببوبرال نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ’ایک بار تھیٹر کے سلسلے میں امریکا گیا تو بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا، اسے کسی دکان پر کوئی کھلونا پسند آ گیا، میں نے پوچھا ’ہاؤ مچ پرائس‘ دکاندار نے کہا نائنٹی ڈالر، سائڈ پر ہو کے باون سے ضرب دی (اس وقت یہی ریٹ تھا) تو مجھے بچہ بُرا لگنے لگا۔‘
ڈالر ہے تو امریکا کی کرنسی لیکن اسے دنیا کے بیشتر ممالک کی معیشت کا ’پیمانہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اپنے ملک کی معیشت ہی کو دیکھ لیجیے، پچھلے کچھ عرصے سے تو اس کی گردان اس قدر ہے کہ قیمت بڑھنے کے ساتھ عوام کی سانسیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔
یہ ڈالر ہے کیا، وجود میں کیسے آیا، یہ اتنا بااختیار کیسے ہے کہ دوسری کرنسیوں کو متاثر کرے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر سوالوں کا جواب جاننے کے لیے شروع ہی سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
امریکی ڈالر کا سفرتقریباً ڈھائی صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ امریکا کی مشہور زمانہ انقلابی لڑائی کے خاتمے پر1775 میں کانٹیننٹل کانگریس نے ملک کے لیے کاغذ کی کرنسی جاری کرنے کی اجازت دی لیکن اس کو ڈالر نہیں کہا جاتا تھا بلکہ اس کا نام کانٹیننٹل کرنسی رکھا گیا اس سے قبل سکے چلا کرتے تھے۔

1775 میں کانٹیننٹل کانگریس نے ملک کے لیے کاغذ کی کرنسی جاری کرنے کی اجازت دی

اپریل 1792میں کانگریس نے ملک بھر کے لیے ایک معیاری کرنسی کے طور پرڈالر تیار کرنے کی منظوری دی۔ یہ کانٹیننٹل کی ایک نئی قسم تھی، لیکن یہ دھاتی شکل میں تھا۔ ڈالر کی اصطلاح نوآبادیاتی دور سے موجود تھی جسے سپینش عام استعمال کیا کرتے تھے اور ’آٹھ ریئل کوائنز‘ کو ایک سپینش ڈالر کے برابر کہاجاتا تھا۔
کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ دراصل ڈالر کا آغاز سولہویں صدی میں ایک چھوٹے سے قصبے باواریا سے ہوا جہاں چاندی کے سکے چلتے تھے جس کو ’تھالر‘ کہا جاتا تھا  جس کے معنی وادی کے ہیں اور چونکہ باواریا ایک وادی ہی تھی اس لیے یہ نام مشہور ہوا۔
یہ سکے اس حد تک چلے کہ جلد ہی پورے خطے تک پھیل گئے۔ اس وقت ملکوں کی سرحدیں آج سے مختلف تھیں آنا جانا آسان تھا اس سے کاروبار میں آسانی پیدا ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لفظ ’تھالر‘ ہی بعدازاں بگڑ کر ڈالر بنا۔
 کچھ عرصہ تو یہ سلسلہ چلا لیکن پھر ہسپانوی سکے میدان میں آ گئے، تاہم دونوں قسم کے سکوں کے وزن میں فرق اور معیار کے حوالے سے شکایات سامنے آنے لگیں جب ان کی ویلیو وزن سے کم ہو جاتی تو بعض لوگ ان کو پگھلانا شروع کر دیتے، جس پر برطانیہ نے نوآبادیاتی کرنسی پر پابندی لگادی۔

ڈالر کا آغاز سولہویں صدی میں ایک چھوٹے سے قصبے باواریا سے ہوا جہاں چاندی کے سکے چلتے تھے جس کو ’تھالر‘ کہا جاتا تھا

بہرحال امریکا میں 1775 میں متعارف ہونے والی کانٹیننٹل کرنسی دیرپا ثابت نہیں ہوئی، آسانی سے اس کی نقل تیار ہو جاتی اس لیے جنگ کے خاتمے کے بعد 1790میں اس وقت کے صدر جارج واشنگٹن نے ایسی کرنسی متعارف کروانے کا سوچا جو معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے معاشی مسائل حل کرنے میں بھی مددگار ہو۔
اس حوالے سے کاغذی کارروائی اور طویل بحث کے بعد کانگریس کے ارکان اس نتیجے پر پہنچے کہ تھالر کو امریکا کی کرنسی کے طور پر اپنا لیا جائے، لیکن اس کے ڈیزائن اور وزن کے حوالے سے خود امریکا فیصلہ کرے گا۔
یہی وہ مرحلہ تھا جب جرمن لفظ ’تھالر‘ کو تبدیل کر کے ’ڈالر‘ کا نام دے دیا گیا۔ اس حوالے سے بعدازاں مختلف ایکٹ بھی بنتے رہے، تاہم ڈالر کو جس اقدام سے بہت مضبوط کیا وہ کوائن ایج ایکٹ تھا۔

اس وقت ایک امریکی ڈالر پاکستان کے ایک سو ستاون روپے کے برابر ہے۔

1792کو بنایا جانے والا یو ایس ڈالر 27گرام چاندی پر مشتمل تھا۔ کچھ سال اسی طرح گزرے لیکن پھر 1861میں امریکا میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس وقت امریکا کے پاس سکوں کی شکل میں دھاتوں کا زرتو تھا لیکن محدود تھا، انہی دنوں میں امریکی انتظامیہ نے کاغذ کے نوٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔
شروع میں اسے نقلی نوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن کچھ دوررس اقدامات کی وجہ سے اس پر قابو پا لیا گیا۔ حالات کچھ سنبھلے تو کاغذی کرنسی کے مزید ثمرات سامنے آنا شروع ہوئے اور کانگریس کے ایک رکن نے ایک مالیاتی ادارے کا تصور دیا جو بعدازں 1863میں بینکنگ سسٹم کی شکل میں سامنے آیا۔
بعدازاں فیڈرل ریزرو ایکٹ 1913 کے تحت ایک مرکزی بینک قائم ہوا جس کا مقصد بدلتی سیاسی صورت حال کے مطابق مالیاتی پالیسیاں بنانا تھا۔ ماضی میں ڈالر کی بنیاد چاندی کی قیمت پرتھی تاہم آج کل زیادہ ترکرنسیوں کی طرح ڈالر کی قمیت سونے سے منسلک ہے۔ 1816 میں برطانیہ کی جانب سے دو دھاتی نظام ترک کیے جانے کے تقریباً 20 سال بعد امریکا بھی یک دھاتی کلب میں آ گیا تاہم سرکاری سطح پر 1900 میں اس کا نفاذ کیا گیا۔

تب سے اب تک ڈالر مختلف ادوار میں اتار چڑھاؤ سے گزرتا رہا 1933میں کساد بازاری کے دنوں میں ڈالراس حد تک گر گیا تھا کہ کچھ ملک اس سے کترانا شروع ہو گئے تھے، تاہم بعد کے ادوار میں  ڈالر مستحکم ہوا۔
پاکستان اور ڈالر
پاکستان اور ڈالر آپس میں کس حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی پاکستان کی سیاست کا ایک اہم نکتہ ’ڈالر کا ریٹ‘ ہے۔
اس وقت ایک امریکی ڈالر پاکستان کے ایک سو ستاون روپے کے برابر ہے۔

شیئر: