Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میر حاصل بزنجو کون تھے؟

سینیٹر حاصل بزنجو کو چئیرمین سینیٹ کا امیدوار بنانے کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں نے کیا تھا.
سینیٹر میر حاصل بزنجو فروری 1958 میں ضلع خضدار کی تحصیل نال میں بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خضدار اور کوئٹہ سے حاصل کی۔ 
1979 میں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹر کیا اور کراچی چلے گئے جہاں جامعہ کراچی سے آنرز کرنے کے بعد فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
حاصل بزنجو نے 1970 کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ 1972 میں بلوچستان سٹودنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او) نال زون کے صدر اور بعد میں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1987میں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کے خلاف تنظیم سے علیحدگی اختیارکی۔
حاصل بزنجو جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف تشکیل دیے جانے والے قوم پرست اور ترقی پسند طلباء کے اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
1985 تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی ) میں متحرک رہے۔ 1988میں بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

حاصل بزنجو کا شمارغیر متزلزل جمہوری مؤقف رکھنے والے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔

ان کے بڑے بھائی بیزن بزنجو1990 کےعام انتخابات قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے بعد ازاں ایک نشست چھوڑ دی جس پر حاصل بزنجو نے انتخاب لڑا اور پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
1997 کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔
1998 میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو چھوڑ کر منحرف اراکین کے گروپ بلوچستان ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوگئے اور سربراہ منتخب ہوئے۔ 2003 میں نئی سیاسی جماعت نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 2005 سے 2008 تک نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔
2009 میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2014 میں اپنی پارٹی کے سربراہ یعنی صدر منتخب ہوئے۔ 2015 میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے اور نواز شریف کابینہ میں شامل ہوئے اور جہاز رانی و بندرگاہوں کے وفاقی وزیر بنے۔
حاصل بزنجو کا شمار غیر متزلزل جمہوری مؤقف رکھنے والے سیاستدانوں کی صف میں ہوتا ہے جنہیں اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھا جاتا ہے۔ مارچ  2018 میں سینیٹ کے موجودہ چئیرمین کی کامیابی کے بعد بھی انھوں نے انتہائی سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے خطاب کیا تھا۔
 انھوں نے کہا تھا کہ ’آج جمہوریت ہار گئی، بالا دست طاقتیں پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہیں اور پارلیمنٹ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اس جیت سے جمہوریت کی ہار ہوئی ہے نو منتخب چیر مین کوکس بات کی مبارک دوں، کیا پارلیمنٹ کو مسمار کرنے کی مبارک دوں؟ اس بلڈنگ کو گرانے کے بعد بلوچستان کا نام لیا جا رہا ہے صوبائی اسمبلیوں کو منڈی بنا دیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ جب ہم نے لوگوں سے ووٹ مانگنے کی بات کی تو انہوں نے کندھوں کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا کہ مجبوری ہے ووٹ نہیں دے سکتے۔‘

شیئر: