Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک خفیہ میٹنگ کی پراسرار داستان

’نیم مشہور‘ لوگوں کی زندگی کے المیے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ جہاں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کو دیکھتے ہی تالیاں پیٹنے لگ جائیں، ان کے نام کے نعرے لگیں، ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں وہیں کوئی سکیورٹی گارڈ یا پی اے نما شخص ان کو روک لیتا ہے۔
پہلے ان سے نام، شناختی کارڈ اور دیگر تفصیلات دریافت کرتا ہے اور پھر جلتی پر پٹرول چھڑکنے کے لیے یہ بھی پوچھ لیتا ہے کہ ’صاحب آپ کرتے کیا ہیں‘۔
نیم مشہور لوگوں کی زندگی کا دوسرا المیہ یہ ہوتا کہ جہاں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی پر ان کی نظر نہ پڑے، کوئی واقف کار نہ ملے، کوئی شخص ان کو پہچان نہ لے وہیں ایک صاحب ہجوم کو چیرتے ہوئے کہیں سے وارد ہوتے ہیں اور بغل گیر ہو کر کہتے ہیں ’آپ وہی ہیں ناں جو ٹی وی پر آتے ہیں یا جو اخبار میں لکھتے ہیں۔‘
ہمارے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوا کہ جہاں کوئی قبول صورت خاتون نظر آئیں۔ بات مسکراہٹ سے علیک سلیک تک پہنچی تو ایسے میں ہجوم کی صفیں چیرتے کہیں سے ایک باریش بزرگ نمودار ہوکر، بغل گیر ہوکر کہنے لگتے ہیں ’انکل  میں تو بچپن سے آپ کی تحریروں کا بڑا مداح ہوں اور آپ کے سسرال کے لحاظ سے آپ کا قریبی رشتہ داربھی ہوں۔‘ بس یہ سننا ہوتا کہ قبول صورت خاتون کو ہماری صورت اتنی قبول نہیں رہتی اور ہم بھی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔

جیسا کہ قارئین کرام جانتے ہیں آج کل صحافیوں پر کڑا وقت آن پڑا ہے۔ کھانے کے لالے پڑ رہے ہیں۔ روزگار کے مسائل سر پر آن کھڑے ہیں۔ ایسے میں ایک، ایک پیسے کی بہت اہمیت ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ میں کوئی بہت کنجوس آدمی ہوں بس آج کل احتیاطا اتنا ضرور کرتا ہوں کہ کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے جانے سے پہلے ادھر ادھر نگاہ دوڑا  لیتا ہوں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ انجانے میں مارے جائیں اور اچانک سے کہیں ہم ایسے چار، چھ صحافی آ دھمکیں ۔ پھر مال مفت اور دل بے رحم والی کیفیت ہو۔ احتیاط اچھی ہے بھائی کڑکی کا زمانہ ہے۔
بس ایسا ہی کچھ ہوا۔
بہت ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک ایسا ہوٹل تلاش کیا جہاں کسی واقف کار کے ملنے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ ہوٹل بھی کوئی فائیو سٹار نہیں تھا۔ عام سا ہوٹل تھا اپنی دیسی گھی کی تڑکہ دال کی وجہ سے مشہور تھا۔ میں نے سب سے کونے والی نشست منتخب کر کے آڈرر کیا۔ بیرے  نےصحافی جان کر احتیاطاً ایک دفعہ پھر پوچھ لیا ’صاحب، دال کو اگر تڑکہ لگوائیں گے تو اس کے پیسے الگ ہوں گے۔‘ غصہ تو بہت آیا مگر بھوک بہت لگی تھی اس لیےغصے کو پینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تڑکہ دال کے انتظار میں چپ چاپ ایک کونے میں خون کے گھونٹ پینے لگا۔ دور دور تک کوئی واقف کار نظر نہیں آ رہا تھا۔ سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ عقب سے آواز آئی ’جناب، آپ وہی ہیں ناں جو ٹی وی میں آتے ہیں۔‘
ایک صاحب جن کا ہیئر سٹائل راقم سے مشابہہ تھا  یعنی سر پر بالوں کی سرحدیں نہ ہوتیں تو ان کو فارغ البال بھی کہا جا سکتا تھا۔ قد بھی قریباً پانچ فٹ سے نکلتا ہوا۔ قطر بھی اندازا اتنا ہی ہو گا۔ سلیٹی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس یہ انجان صاحب  اس گرمجوشی سے مجھے آکر  گلے  ملے کہ جس طرح انڈین فلموں میں کمبھ کے میلے میں بچھڑے بھائی ملتے ہیں۔
پہلے تو انہوں نے مجھ سے پوچھے بغیر ویٹر کو آڈرر ڈبل کرنے کو کہا، پھر دو انرجی ڈرنک اور جوس کے بڑے ڈبے کا آڈرر کر دیا۔ میں جو اب تک حیران پریشان ان کو دیکھ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے ان سے بس اتنا ہی سوال کر سکا، ’آپ کا تعارف ؟‘
کہنے لگے ’آپ مجھے نہیں جانتے؟ میں بھی خود کو نہیں جانتا۔ لیکن دنیا مجھے جانتی ہے۔ جان پہچان بھی عجیب چیز ہوتی ہے ہمیں خود نہیں پتا ہوتا کہ ہم کسے جانتے ہیں اور کون ہمیں جانتا ہے۔  دنیا اسی کا نام ہے۔ لیکن یہ دنیا ہے فانی۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ دنیا ہے پانی، بخار والا پانی، حصار والا پانی، خمار والا پانی۔ پانی نہ ہو تو اس دنیا میں کیا ہے۔ آپ یوں کریں میرے اقوال زریں لکھ لیں۔‘  یہ کہہ کر وہ صاحب اپنے تڑکہ دال بھرے ہاتھوں کے ساتھ ایک دفعہ پھر مجھ سے بغل گیر ہوگئے۔

 میں نے بڑی مشکل سے انہیں خود سے الگ کیا تو دیکھا کہ اس بے سروپا تعارف کے دوران وہ صاحب کئی تندوری روٹیاں نگل چکے تھے، تڑکہ دال کی دوسری پلیٹ بھی اپنے اختتام پر تھی۔ میں نے پھر ہمت کر کے سوال کیا بھائی صاحب آپ کرتے کیا ہیں؟ کہنے لگے ’میں کوئی مجرم نہیں لیکن میں نے بہت جرم کیے ہیں۔ مظلوم ہوں مگر ظلم بھی بہت ڈھائے ہیں۔ بے قصور ہوں مگر قصور وار بھی گردانا جاتا ہوں۔ الم فگار ہوں مگر دل ہی دل میں خوش بھی بہت ہوں۔ میں کیا کام کرتا ہوں یہ نہ پوچھیے۔ یہ تو دنیا جانتی ہے۔ میں کیا کام نہیں کرتا اس کے بارے میں پوچھیے۔ آپ نوٹس لے رہے ہیں ناں۔‘ یہ کہ کر وہ صاحب ایک دفعہ پھر مجھے گلے لگا کر زور زورسے بھینچنے لگے۔ 
میں نے بمشکل ان کو خود سے الگ کیا۔ اس وقفے کے دوران وہ مزید دو پلیٹ دال اور چھ تندوری روٹی کا آڈرر کر چکے تھے۔ میں نے ایک دفعہ پھر اپنا سوال دوہرایا کہ بھائی صاحب آپ کرتے کیا ہیں؟ فرمانے لگے ’کچھ لوگ سمجھتے ہیں میں اداکاری کرتا ہوں۔ لوگ سمجھتے ہیں میں فلموں میں کام کرتا ہوں ۔ آپ لکھ  رہے ہیں ناں؟ تو میں کہ رہا تھا کہ آج کل میں جس گلی محلے اور بازار سے گزرتا ہوں لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے میری فلمیں دیکھی ہوئی ہیں۔ سکول کالج کے  بچے آکر سیلفیاں کھینچتے ہیں۔ کچھ تو شرماتے شرماتے آٹو گراف بھی مانگتے ہیں۔ کچھ فلموں میں کامیابی کا راز پوچھتے ہیں۔ آپ خود بتائیں کیا میں آپ کو فلموں میں کام کرنے والا لگتا ہوں؟‘
یہ صاحب جو بھی تھے کسی بھی حوالے سے کسی اداکار سے مشابہت نہیں رکھتے تھے۔ اس الل ٹپ گفتگو کے دوران اب تک ہوٹل میں تڑکہ دال کا دیگچہ پونچھا جا چکا تھا اورتندور بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اس بے سروپا گفتگو سے میں بھی تنگ آ چکا تھا۔ میں نے آخری دفعہ ان صاحب سے غصے میں پوچھا کہ آخر یہ کیا بکواس ہے؟ 
انہوں نے آہستگی سے کہا ’بھائی صاحب، یہ بکواس نہیں میرا بیان حلفی ہے۔ پھر پہلے انہوں نے سراسیمہ سی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا اور میرے کان کے قریب آکر دھیرے سے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگے ’ریکارڈنگ ہو گئی؟‘
اس دفعہ میں نے انہیں گلے سے لگا لیا۔ 

شیئر: