Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمار مسعود کا کالم: اصل چیز ہوتی ہے شخصیت

لڑکپن میں اردو کے معروف مزاح نگار جنرل شفیق الرحمٰن کا ایک کچھ اس طرح کا جملہ پڑھا تھا ’شکل اور صورت، حسب اور نسب، شجرے اور خاندان، ہنر اور تعلیم،  قابلیت اور ذہانت سے آخر کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل چیز ہوتی ہے شخصیت۔‘
یقین مانیے ہم ایسے ’کوڑھ مغزوں‘ کو یہ بات اس وقت سمجھ نہیں آئی۔ لیکن تقریباً دس سال کے بعد جب اس جملے کی کاٹ کا اںدازہ ہوا تو بہت ہنسی آئی۔ ہماری ساری زندگی ایسے تاریخی لطیفوں میں گزری ہے جن کی ہمیں سجھ بہت بعد میں آئی۔
اس ملک کی تاریخ میں ایوب کا دور آپ کو یاد ہی ہوگا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے فیلڈ مارشل کی 56 انچ کی چھاتی پر ملکہ برطانیہ بھی فدا ہو، ہو جاتی تھیں۔
اس زمانے میں ہمیں بتا یا گیا کہ اصل چیز ہوتی ہے ’زرعی ترقی‘۔ فیلڈ مارشل صاحب کا حکم تھا اس لیے ساری قوم ’زرعی انقلاب‘ کے حصول کے لیے جُٹ گئی۔ ہرطرف ’سبز انقلاب‘ کے نعرے لگنے لگے۔ ملک میں ڈیموں کی تعمیر شروع ہو گئی۔ ترقی کا گراف اوپر سے اوپر جانے لگا۔ فیلڈ مارشل صاحب کے دور میں ملک نے اتنی ترقی کر لی کہ ترقی کا 10 سالہ جشن بزور بازو ایک سال تک منانے کا فیصلہ کیا گیا۔

فیلڈ مارشل صاحب کا حکم تھا اس لیے ساری قوم ’زرعی انقلاب‘ کے حصول کے لیے جٹ گئی (اے ایف پی فوٹو)

اس دور کے خاتمے کے بعد ہمیں ادراک ہوا کہ یہ وہی دور تھا جس میں فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا، ملک کی زمیں امریکی اڈوں کے حوالے کر دی گئی۔ سرکش لکھاریوں اور صحافیوں کو لگامیں پہنانے کے لیے ’رائٹرز گلڈ‘ کا شوشہ چھوڑا گیا۔
پھر بھٹو کا دور آیا۔ ٹریڈ یونینز بنیں، طلبا تنظیمیں بنیں، جلسے جلوس ہوئے، رونق میلہ لگا۔ سٹیل مل بنی۔ نیوکلیئر پلانٹ لگا۔ تب  ہم جیسے ’نالائقوں‘ کو 10 سالہ زرعی انقلاب کے جبری جشن پر بہت ہنسی آئی۔
 
ضیا الحق کے دور میں ہمیں سمجھایا  گیا کہ اصل چیز ہوتی ہے ’جہاد۔‘ اپنے پڑوسیوں کے حق کے لیے اپنی جان قربان کرنا۔ جنرل صاحب نے حکم دیا بس پھر کیا تھا سب کے دلوں میں ’جہاد‘ کا الاؤ بھڑکنے لگا۔
اس دور میں ہمیں تعلیم دی گئی کہ ہم نے ہر صورت روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنا ہے۔
روس سے ہماری شناسائی صرف جغرافیہ کی کلاس تک تھی، اور گرم پانی سکول کے کائی لگے حمام میں کثرت سے موجود تھا مگر اس کے باوجود ساری قوم نے سابقہ صدر کے حکم پر سلیوٹ مارا اور سب روس کی روک تھام میں لگ گئے۔ اس وقت ہم افغانستان کو اپنا صوبہ بنانے کی فکر میں تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بے نمازی افسروں کی ترقیاں روک دی جاتی تھیں۔ افغان مہاجرین کودیکھ کرانصار مدینہ کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ ٹی وی پر ڈراموں میں عشق محبت جیسی حرام چیزوں کے بجائے تقویٰ اور پرہیزگاری کی تلقین کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں جہادی ہم خود تیار کر کے افغانستان برآمد کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اس زمانے میں ’آمدنی سے زیادہ اثاثوں‘ جیسی خرافات نہیں تھیں اس لیے کنٹینروں میں امریکی ڈالر آتے اور جانے کہاں جہنم رسید ہوجاتے تھے۔

ضیا الحق کے دور میں ہمیں سمجھایا گیا کہ اصل چیز ہوتی ہے ’جہاد‘ (اے ایف پی فوٹو)

 یہ دور ختم ہوا تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم نے امریکہ کے ایمانی جہاد میں گھس کر اپنا ملک تباہ کر لیا ہے۔ کلاشنکوف اسی دور میں اس ملک میں متعارف ہوئی۔ خود کش  دھماکے اور ہیروئن کی فراونی بھی انہی دنوں کی یاد گار ہے۔ جنرل صاحب فرماتے رہے کہ ان کا مقصد نوے دن کے اندر انتخابات کروا کر عوامی نمائندوں کو لوٹانا ہے۔ یہ نوے دن جب 11 سال پر محیط ہو گئے تو ہمیں اپنی سادہ لوحی پر بہت ہنسی آئی۔
جنرل مشرف نے ضیا الحق  کے نظریات سے بالکل ہی ’یو ٹرن‘ لے لیا۔ پہلے تو کتوں کے ساتھ اپنی تصاویر نشر کروا دیں پھر ’روشن خیالی‘ کا درس دینا شروع کیا۔ انہوں نے ہم جیسے احمقوں کو بتایا اصل چیز ہے ’روشن خیالی‘۔ یہ ملا، مولوی اور مدرسے پرانے زمانے کی باتیں ہیں، قدامت پسندی کی علامتیں ہیں۔
یہ سننا تھا کہ ایک دم  ساری  قوم ’روشن خیال‘ ہو گئی۔ سب قدامت پسندی کی علامتیں مع  دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔
 
ایسے میں اپنے لوگوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کو شجاعت قرار دیا گیا۔ ’ظفر اللہ جمالی‘ جیسے فرمانبرداروں کو جب چاہا مسند پر بٹھا دیا جب چاہا ان کا تخت الٹا دیا گیا۔ اس زمانے میں روشن خیالی  کے نام پر انہی مدرسوں کی چھان بین شروع ہو گئی جو ’سڑیٹیجک اثاثے‘ قرار دیے جاتے تھے۔
یہ دور جب ختم ہوا تو ہمیں احساس ہوا کہ ملک ’روشن خیال‘ ہونے کے بجائے دہشت گردی کی دلدل میں مزید دھنس گیا ہے۔ ہر روز دنیا میں نہیں، ہمارے ہاں دھماکے ہوتے ہیں۔ بچے ہمارے مرتے ہیں اور عورتیں ہماری بیوہ ہوتی ہیں۔ مسجدیں ہماری دھماکوں سے خون میں نہا جاتی ہیں۔ اب جو دنیا ہمیں ہر وقت دہشت گردی میں معاونت کے الزامات دیتی ہے تو سچ بات ہے ’روشن خیالی‘ والی بڑ پر بہت ہنسی آتی ہے۔

جنرل مشرف نے ضیا الحق  کے نظریات سے بالکل ہی ’یو ٹرن‘ لے لیا۔ (اے ایف پی فوٹو)

آج ہمیں سمجھایا جاتا ہے کہ اصل چیز ہوتی ہے ’معیشت‘۔ اگر معیشت کمزور ہو جائے تو ملک کمزور ہو جاتا ہے۔ ملک کا دفاع کمزور ہو جاتا ہے۔ اب اس ملک کے تمام ناکارہ اور نکھٹو افراد کو چاہیے کہ وہ معیشت کی بہتری کے لیے دن رات ایک کر دیں۔ اب ہمیں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کی پرواز کو بلند کرنا ہے۔ بد راہ اور بد چلن ڈالر کی قیمت کو راہ راست ہر لانا ہے۔ پٹرول کی قیمت کو کم کرنا ہے۔ ترقیاتی کاموں کا آغاز کرنا ہے۔ اس ملک میں شاہراہوں کی تعمیر کرنی ہے۔ بزنس مین کو حوصلہ دینا ہے۔ ایکسپورٹس کو بڑھانا اور امپورٹس کو کم کرنا ہے۔ بیرونی قرضے اتارنے ہیں۔
سچ پوچھیں توبات ابھی ہمیں نہیں سمجھ آ رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم جیسے ’کوڑھ مغزوں‘ کو کبھی بات جلد سمجھ نہیں آتی۔ یہ بات البتہ وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کچھ عرصے بعد جب ہمیں یہ بات سمجھ آئے گی تو ہم  اس پر خوب ہنسیں گے۔ فی الحال بس اتنا ہی سمجھیے ’اصل چیز ہوتی ہے شخصیت‘۔ 

شیئر: