Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان، صوبہ ہرات کی ’ہیرو گرل‘

طالبات چاہتی ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ان ویڈیو گیمز سے مدد لی جا سکے۔
افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں سکول کی طالبات نے’افغان ہیرو گرل‘ کے نام سے ایک ویڈیو گیم بنائی ہے جس میں ایک لڑکی کو مشکلات سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔
یہ ویڈیو گیم ایک موبائل ایپ ہے۔ ’افغان ہیرو گرل‘ کو 12 طالبات نے چھ مہینوں میں بنایا ہے۔
اس گیم میں افغان لباس پہنے ایک شہزادی ایک خستہ حال قلعے میں محصور اپنے خاندان کو ایک جادوگر سے بچاتی دکھائی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان طالبات کی جانب سے افیون کے خاتمے اور افغانستان کے جغرافیے پر بھی گیمز بنائی گئی ہیں۔

یہ ویڈیو گیم 12 طالبات نے ڈیویلپ کی ہے۔

 کمپیوٹر سائنس کی استاد فرشتہ فروغ کہتی ہیں کہ گیمنگ انڈسٹری میں خواتین کی نمائندگی کی کمی کو طالبات نے محسوس کیا تھا۔
ان کے مطابق طالبات گیمز میں سپر ہیروز کو دیکھ کر بور ہو گئی تھیں اور چاہ رہی تھیں کہ وہ خود کچھ بنائیں۔
’اس گیم میں دکھایا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کیسے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں تاہم اس کے باوجود وہ اپنے حقوق کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔‘
ایک ایسا ملک جہاں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع محدود، انٹرنیٹ تک رسائی کم اور جہاں خواتین کو ہر موڑ پر امتیازی سلوک کا سامنا ہو وہاں فرشتہ فروغ خواتین میں ٹیکنیکل مہارت دیکھتی ہیں۔
فرشتہ فروغ کے مطابق اگر طالبات کوڈنگ کرنے کی مہارت حاصل کر لیں اور ان کے پاس انٹرنیٹ ہو تو وہ اس سے گھر کی حفاظت سمیت بہت سارے کام لے سکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ہم جو کام کر رہے ہیں وہ برابری، خواتین کو بااختیار اور تبدیلی کے بارے میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خواتین اس قابل ہوں کہ وہ اپنے معاشرے کے لیے کچھ اچھا کر سکیں اور اپنی سماجی، سیاسی اور اقتصادی برابری کے لیے لڑیں۔‘

20 برس پہلے افغانستان میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی گئی تھی (فوٹو:اے ایف پی)

ایک طالبہ نسرین واحدی کہتی ہیں ’گیم اور ایپ ڈیولپر کے طور پر میرا مقصد ہے کہ مجھ سے جتنا بھی ہوسکے لڑکیوں کے لیے تعلیمی گیمز بناؤں۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہم چاہتی ہیں کہ لڑکیاں گیمز کے ذریعے تعلیم حاصل کر سکیں۔‘
طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے نمایاں تبدیلی دیکھی گئی تھیں لیکن اب بھی طالبات کو دھمکانے اور سکولوں پر حملوں جیسے چیلجز ہیں۔
دیگر افغانوں کی طرح فرشتہ فروغ بھی طالبان کے دوبارہ سے برسراقتدار آنے سے پریشان ہیں۔
 20 برس پہلے طالبان کے دور میں  خواتین کی تعلیم پر پابندی تھی۔

فرشتہ فروغ کے مطابق طالبات ٹیکنیکل تعلیم کی مہارت رکھتی ہیں۔ (فوٹو:اے ایف پی)

فرشتہ فروغ سمجھتی ہیں بدترین صورتحال میں اگر طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو ٹیکنالوجی ایک ایسا ہنر ہے جو خواتین کو ان کے گھر کی دہلیز سے بھی آگے پہنچا سکتا ہے۔
افغان طالبات کی جانب سے بنائی گئی یہ گیمز اور ایپس تعلیم اور تفریح کا ذریعہ ہیں۔
ہرات میں اب تک 150 سے زیادہ طالب علموں کو گیمز کے لیے کوڈنگ کی تعلیم دی جاچکی ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر:

متعلقہ خبریں