Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت نہیں چاہتی کہ قانون سازی ہو‘

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ٹویٹس اس بات کی عکاسی ہیں کہ حکومت قانون سازی میں سنجیدہ نہیں ہے۔ فوٹو: فیس بک
 پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت، توسیع اور دوبارہ تقرری سے متعلق قانون سازی کو حکومت کے رویے سے مشروط کر دیا ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ٹویٹس اور وفاقی وزرا کے بیانات اس بات کی عکاسی ہیں کہ حکومت قانون سازی میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اپوزیشن قانون سازی سے متعلق مل کر مشترکہ حکمت عملی طے کرے گی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی تقرری، مدت ملازمت، توسیع اور دیگر معاملات سے متعلق قانون سازی کے لیے معاملہ پارلیمان کو بھیجا ہے جس کے بعد پارلیمان میں حکومت کی عددی کمزوری کے باعث اپوزیشن جماعتوں کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
فیصلہ آنے کے فوراً بعد وزیر اعظم کی جانب سے آنے والے ٹوئیٹس اور فروغ نسیم سمیت دیگر وزرا کے بیانات کے بعد اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہیں اپوزیشن کے ووٹوں کی ضرورت ہے اس طرح کے بیانات حکومت کی غیر سنجیدگی واضح کر رہے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل اور رکن قومی اسمبلی احسن اقبال نے کہا کہ ’ہمیں تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے، اس کو پڑھ کر ہی مستقبل کا لائحہ عمل بنائیں گے۔ تفصیلی فیصلے کے بعد حکومت جو بل لائے گی اس پر اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھ کر مشاورت کریں گی اور اپنا ردعمل دیں گی۔‘
حکومتی رہنماؤں کی جانب سے اپوزیشن کے عدم تعاون کو توہین عدالت قرار دیے جانے پر احسن اقبال نے کہا کہ ’وزیر اعظم نے جو بیانات جاری کیے اور وفاقی وزرا نے جو الزام تراشی کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ قانون سازی ہو سکے۔ حکومت مسلسل اپوزیشن کی تضحیک، الزام تراشی اور کردار کشی کر رہی ہے جبکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں اپوزیشن کے ووٹوں کی ضرورت ہے۔‘
احسن اقبال نے کہا کہ ’ایسی صورت حال میں حکومت کے رویے سے متانت، فراصت اور تحمل جھلکنا چاہیے لیکن وہ اپوزیشن کو اشتعال دلانے میں لگے ہوئے ہیں۔‘

پاکستان کے پارلیمانی نظام میں آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے سربراہ آصف علی زرداری اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں اور بیماری کے باعث ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’قانون سازی میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ تو پارٹی اجلاس میں کیا جائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی بحران یا ڈیڈلاک پیدا نہیں کرتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ہمیشہ ملک بحرانوں میں ملا اور ہم نے اسے بحرانوں سے نکالا۔ حکومت کی نالائقی کی وجہ سے صورت حال پیدا ہوئی اب بھی انحصار حکومتی رویے پر ہے کہ وہ قانون سازی میں کتنے سنجیدہ ہیں۔‘
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ’وفاقی وزرا یہ سمجھ رہے ہیں کہ اپوزیشن خود دوڑ کر اس قانون سازی کے لیے ووٹ دے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ فروغ نسیم کی طرف سے توہین عدالت کی بات ایک مذاق ہے اور اگر وہ سنجیدہ تھے تو پھر وزیر قانون کے رویے پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔‘
پاکستان کے پارلیمانی نظام میں آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے جبکہ قانون سازی کے لیے سادہ اکثریت چاہیے ہوتی ہے۔ پارلیمان میں اس وقت نمبر گیم کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں حکومت کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی تعداد زیادہ ہے۔ حکومت اگر اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر قومی اسمبلی سے بل پاس کروا بھی لے تو اسے سینیٹ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی بھی ایک ایوان سے مجوزہ قانون مسترد ہونے کی صورت میں اسے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں لانا پڑے گا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں