Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شرمناک صورتحال تھی جب ٹی وی پر۔۔۔

مختصر فیصلہ جاری کرنے کا عندیہ دیا تو عدالت کا ماحول پرسکون ہو گیا اور زیادہ تر صحافی اپنے دفاتر واپس روانہ ہو گئے
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف کیس کی سماعت  کے دوران ماحول زیادہ تر خوشگوار رہا تاہم ایک موقع پر چیف جسٹس نے ففتھ جنریشن وار کا بھی ذکر کیا۔
جمعرات کو سماعت کے تیسرے دن چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کل سے ان کے خلاف مہم چل رہی ہے انہیں ففتھ جنریشن وار کا ایجنٹ کہا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا مکمل طور پرقابو سے باہر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی اداروں کا احترام ہونا چاہیے۔ مجھے چیک کرنا پڑا کہ ففتھ جنریشن وار کیا ہوتی ہے۔
ایک موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آرمی چیف کی مدت کا قانون میں تعین ہونا چاہیے۔ اگر زبردست آدمی مل جاتا تو کیا وہ 30 سال کے لیے مقرر ہو گا؟
چیف جسٹس نے ایک موقع پر اٹارنی جنرل سے کہا کہ جب عدالت آتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے قانون میں کیا کمی ہے دیکھیں ناں حینف راہی (درخواست گزار) ہمارے پاس آئے تھے ہم نے انہیں جانے نہیں دیا۔۔۔جس پر کمرہ عدالت میں قہقے بلند ہوئے۔
ایک موقع پر آرمی ایکٹ اور ریگولیشن میں ابہام پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلطیاں تو آئین میں بھی ہیں میں نے خود اٹھارہ غلطیاں دیکھی ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان غلطیوں کے باجود آئین کی یہ کتاب ہمارے لیے بہت محترم ہے ہر چیز کو اسی پر پرکھنا ہے۔ اٹارنی جنرل فوراً بولے یقیناً یہ ہمارے لیے بائبل ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے اس ملک کی خدمت کی ان کا بڑا احترام ہے مگر اس سے بھی زیادہ آئین کا احترام ہے جو ہم سب سے بڑا ہے۔
چیف جسٹس نے حکومت کی طرف سے توسیع کے معاملے پر قانونی اور تکنیکی غلطیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف ملکی دفاع پر نظر رکھیں یا اپنی سمری کی پیچیدگیوں کو سدھاریں؟ اٹارنی جنرل اور حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کتنی شرمناک صورتحال تھی جب ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں کہ چیف صاحب آپ کی خود رہنمائی کر رہے ہیں۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ (حکومت) سے نہیں کہہ رہے کہ ابھی قانون بنائیں جو 72 سال سے نہیں بنا آپ سے۔
جب چیف جسٹس نے حکومت کی طرف سے چار یقین دہانیاں جمع کروانے کے بعد آج جمعرات کو ہی مختصر فیصلہ جاری کرنے کا عندیہ دیا تو عدالت کا ماحول پرسکون ہو گیا اور زیادہ تر صحافی اپنے دفاتر واپس روانہ ہو گئے۔

شیئر: