Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مدت ملازمت: قانون سازی کیسے ہوگی؟

پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی یا آرمی ایکٹ میں ترمیم سے معاملہ حل ہو جائے گا؟ (فوٹو: روئٹرز)
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل اور سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ’حکومت آرمی چیف کی تقرری، توسیع اور مدت ملازمت سے متعلق قانون پارلیمنٹ میں لائے گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئے قانون کی منظوری کے لیے حکومت کو ایوان میں سادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی تقرری، مدت ملازمت، توسیع یا دوبارہ تعیناتی سے متعلق قانون سازی کے لیے معاملہ پارلیمان کو بھیجے جانے کے بعد ایک نئی بحث نے سر اٹھا لیا ہے کہ آیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی یا محض آرمی ایکٹ میں ترمیم سے ہی معاملہ حل ہو جائے گا؟
قانونی ماہرین کے مطابق حکومت کے پاس اس معاملے کو حل کرنے کا بہترین طریقہ آئینی ترمیم ہے لیکن صرف قانون سازی سے بھی مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔
ماہر قانون اور سینیٹر محمد علی سیف نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں ہی اگلا قدم اٹھانا ہے اور سپریم کورٹ میں قانون سازی کی بات ہوئی ہے۔ عدالت نے زبانی یا تحریری طور پر قانون سازی کی بات کی ہے اور لفظ قانون پر اعتراض نہیں اٹھایا۔‘
انھوں نے کہا ’میرے خیال میں آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے اور میں یہ بھی نہیں کہتا کہ آئینی ترمیم کرنا غلط ہوگا۔ تاہم مسئلے کا حل قانون میں ترمیم کے ذریعے بھی نکالا جا سکتا ہے۔‘
بیرسٹر سیف کے مطابق ’آئین میں بنیادی اصول وضع ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر قوانین بنتے ہیں اور ان میں تفصیل شامل ہوتی ہے۔ ہر لفظ آئین میں موجود نہیں ہوتا اور اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو دنیا کا کوئی بھی آئین مکمل نہ ہو۔‘

سینیٹر محمد علی کے مطابق سپریم کورٹ میں قانون سازی کی بات ہوئی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

انھوں نے کہا کہ ’اگر آئین صدر کو آرمی چیف کی تقرری کا اختیار دیتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ صدر کو دوبارہ تقرری یا توسیع دینے کا بھی اختیار دیتا ہے۔ تاہم حکومت کے پاس اب موقعہ ہے کہ وہ قانون اور پھر ریگولیشنز میں ان معاملات کی وضاحت بھی شامل کر دے۔‘
کچھ ماہرین سابق وزیر قانون فروغ نسیم اور بیرسٹر سیف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں قانون سازی میں آئینی ترمیم شامل ہوتی ہے۔
سینیئر قانون دان بیرسٹر اکرم شیخ کے مطابق عدالت نے پہلے دن تین اصول وضع کیے تھے جن میں اختیار، متعلقہ قانون اور توسیع کی وجوہات شامل تھیں۔
’اب اگر حکومت صرف تعیناتی کی مدت کا تعین کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے بہتر ہے کہ حکومت قانون میں ترمیم کرلے لیکن اگر وہ توسیع یا دوبارہ تقرری کا اختیار بھی صدر کو دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آئینی ترمیم ہی لانا پڑے گی۔‘
ماہر قانون بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ ’سچی بات یہ ہے کہ عدالتی فیصلے میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ آئین میں ترمیم کرنی ہے یا قانون سازی چاہیے۔‘

جنرل باجوہ کو چھ ماہ بعد توسیع دینا یا نیا آرمی چیف لانا پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے (فوٹو: ٹویٹر)

انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ بہتر ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کرلے اور ایک ہی بار معاملہ حل کرلے۔
’میرا نہیں خیال کہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے پر کوئی سیاست کریں گی اور نہ ہی کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک معاملہ ہے جو طے کرنا ہے جس کا کسی سیاسی معاملے سے تعلق نہیں ہے۔‘
پاکستان کے پارلیمانی نظام میں آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے جبکہ قانون سازی کے لیے سادہ اکثریت چاہیے ہوتی ہے۔ پارلیمان میں اس وقت نمبر گیم کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں حکومت کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی تعداد زیادہ ہے۔ حکومت اگر اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر قومی اسمبلی سے بل پاس کروا بھی لے تو اسے سینیٹ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی بھی ایک ایوان سے مجوزہ قانون مسترد ہونے کی صورت میں اسے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں لانا پڑے گا۔

’چھ ماہ کے اندر سادہ اکثریت سے قانون منظور کرایا جائے گا‘

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آرمی ایکٹ میں تبدیلی لائی جائے گی اور پارلیمنٹ سے چھ ماہ کے اندر سادہ اکثریت سے قانون منظور کرایا جائے گا۔‘

’ہمیں آرمی چیف کا ساتھ دینا ہے، وہ آئین، جمہوریت اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد میں حکومت کی قانونی ٹیم نے نیوز کانفرنس کی جس میں اٹارنی جنرل انور منصور خان، سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر شامل تھے۔
اس موقعے پر سابق وفاقی وزیر قانون اور سپریم کورٹ میں آرمی چیف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے آرمی چیف کے تقرری کی سمری مسترد نہیں کی، جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوسری مدت جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب 12 بجے شروع ہو جائے گی۔‘
ان کے مطابق ’چھ ماہ کے اندر پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے آرمی چیف کی مدت، دوبارہ تقرر اور توسیع کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ کہنا کہ چھ ماہ بعد جنرل باجوہ کی مدت ختم ہو جائے گی، غلط ہے۔ یہ دشمن کا ایجنڈا ہے جو چاہتا ہے کہ جنرل باجوہ جیسا زبردست انسان جو چٹان کی طرح کھڑا ہے، اِدھر اُدھر ہو جائے۔‘
’ہمیں آرمی چیف کا ساتھ دینا ہے، وہ آئین، جمہوریت اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

’سپریم کورٹ نے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کار ٹھیک نہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

 اٹارنی جنرل انور منصور خان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کا موقف یہ تھا کہ آرمی چیف کے تقرر کا طریقہ کار ٹھیک نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں آرمی چیفس کا تقرر روایت کے طور پر ہوتا رہا اور ہم نے بھی ایسی ہی سمری بھیجی جیسی ماضی میں بھیجی جاتی رہی ہیں۔ہم نے عدالت کے کہنے پر آرمی چیف کے تقرر کا نیا نوٹی فیکیشن جاری کیا۔‘

شیئر: