Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کورونا کا خوف کورونا سے زیادہ خطرناک ہے؟

کچھ عرصہ قبل پھوٹنے والی وبا نے عالمی سطح پر خوف کی ایک لہر دوڑا دی ہے اور حال یہ ہے کہ سادہ سے سادہ چیز بھی جیسے سودا سلف کی خریداری بھی جان لیوا خطرہ محسوس ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں کورونا وائرس کی علامات کا سامنا ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دیمہ الخدیر بتاتی ہیں کہ ایا اینن جدہ میں واقع امریکن انٹرنیشنل سکول کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ سعودی لائسنس یافتہ ماہر نفسیات اور منٹل ہیلتھ کی ماسٹر ڈگری رکھتی ہیں۔
خوف کی حالت میں ذہن کے جسم پر اثرات کے حوالے سے وہ کہتی ہیں: ’میری رائے میں ذہنی اور جسمانی صحت میں ربط جانچنے کا بہترین طریقہ ایک قسم کا ماحولی نظام ہی ہے۔
’بجائے کسی ایک نکتے پر توجہ مرکوز کرنے کے ہمیں اس کو مجموعی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ مختلف چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
ایک چھوٹی سی تبدیلی ایسی لہریں پیدا کر سکتی ہے کہ پورا ماحول متاثر ہو سکتا ہے‘

نفسیات میں ذہنی دباؤ کو جذباتی تناؤ اور بوجھ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یہ کسی فرد کی سوچ، احساسات اور اس کے دوسروں کے ساتھ معاملات پر اثرانداز ہوتا ہے اور صحت کے لیے بے شمار منفی اثرات پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’کچھ لوگوں کی دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ جاتی ہے، کچھ لوگ معدے میں جکڑن محسوس کرتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ دباؤ کے وقت میں ہاضمے کی قوت کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے نظام انہضام متاثر ہو سکتا ہے اور نتیجہ السر کی شکل میں نکل سکتا ہے۔‘
’دباؤ کے دوران خارج ہونے والا اینڈرینالائن (وہ مادہ جو گردوی غدود کے مغز سے رستا ہے) السر، تھکن اور پٹھوں میں درد کا باعث بن سکتا ہے۔ ذہنی دباؤ بلڈ پریشر کو بڑھا کر مدافعتی نظام بھی اثرانداز ہو سکتا ہے‘
اینن نے کہا کہ خوف و بے چینی کو معمول کا ردعمل سمجھ کر دباؤ کی حالت سے صحت مندانہ طور پر نمٹا جا سکتا ہے۔
’اپنے جذبات کو پرکھیں اور اندازہ لگائیں کہ کون سا ردعمل آپ کو فائدہ دے گا اور وہ کون سے طریقے ہیں جو ہمیشہ منفی نہیں ہوتے۔ یہ اس وقت مسئلہ بن سکتے ہیں جب ہماری زندگیوں کو کنٹرول کریں یا ہمارے اہداف کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خوف سے بچنے کا ایک  بہترین طریقہ یہ ہے کہ خوف اور حقائق کا موازنہ کریں اور جن چیزوں کو کنٹرول یا تبدیل کر سکتے ہیں اور جن کو نہیں کر سکتے ان کو الگ الگ کریں۔

اینن نے بتایا: ’ضروری احتیاطی تدابیر سے باخبر رہیں، جب بھی عوامی مقامات پر جانا ہو تو ماسک اور دستانے پہنیں، لوگوں سے مناسب فاصلہ رکھیں، ہاتھوں کو دھوتے رہیں۔ اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیں کہ آپ بیماری سے تندرست ہو سکتے ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیماری لاحق ہونے کے بعد زندگی بھر اسی کے ساتھ رہنا ہے۔‘
سعودی کمیشن برائے صحت سے وابستہ ایک سینیئر نفسیات دان ماجد خطاب کا کہنا ہے کہ ذہن اور جسم میں رابطہ دوطرفہ ہے۔ ذہنی حالت جسم پر اثر ڈالتی ہے اور اسی طرح ہی جسم ذہن پر اثرانداز ہوتا ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’خوف ایک عام سا جذبہ ہے جو جسم کو بسااوقات مناسب انداز میں  ردعمل کے لیے تیار کرنے میں فائدہ مند ہے لیکن جو چیز ہم پر واضح منفی اثر رکھتی ہے وہ ہے خوف کے حوالے سے مبالغہ، جو عام طور پر مستقبل اور متوقع خطرے کے درمیان دوری کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘
مسلسل خوف کی کیفیت نفسیاتی اصطلاح فائٹ آر فلائٹ (ڈٹ جاؤ یا بھاگ جاؤ) کو انسانی جسم میں متحرک کر دیتی ہے، جس سے جسم پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے اس سے تھکن کے آثار پیدا ہوتے ہیں بشمول مدافعتی نظام میں کمزوری کے، اور یوں ہم بیماریوں کے سامنے ایک آسان ہدف بن جاتے ہیں۔
انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی خوف انسان کو اپنی جسمانی صحت کی غلط تشریح کی طرف بھی لے جاتا ہے۔
’یہ چیز ہم میں غلط طور پر یہ خیال پیدا کر سکتی ہے کہ ہم بیمار ہیں، یا پھر اس کی وجہ سے کسی جاری کیفیت کی شدت بہت زیادہ محسوس ہو سکتی ہے‘

خطاب نے کہا کہ اس امر کا احساس ضروری ہے کہ ہدف خوف کو ختم کرنا نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خوف اور اس کی وجوہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان کر اسے کیسے کنٹرول کیا جائے۔
’کووڈ 19 کی وبا کے معاملے میں معتبر ذرائع سے وائرس کے بارے میں مناسب علم خوف کو کم کرنے، ضروری اقدامات کرنے اور بیماری کو پھیلنے سے بچانے کا بنیادی نکتہ ہے۔‘
 انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مریض کی نفسیاتی حالت اس پر اثرانداز ہو سکتی ہے کہ کس طرح سے وہ علامات کو محسوس کرتا ہے ایک پرسکون اور لچکدار ذہنی حالت عام طور پر شفایاب ہونے میں مددگار ہوتی ہے۔
’کورونا وائرس کے مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے معالج کے ساتھ کھل کر بات کرے تاکہ بیماری کے بارے میں ٹھوس امید حاصل کرے۔ یہ بات یقینی ہے کہ مریضوں کی اکثریت مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتی ہے جبکہ کم تعداد میں ایسے مریض بھی ہیں جو پیچیدگیوں کے باوجود بھی تندرست ہو جاتے ہیں۔‘
خطاب نے کہا کسی بیماری پر نفیساتی عوامل کے اثر کی اہمیت میڈیکل فیلڈ میں تسلیم شدہ ہے۔
’بڑی عمر کے یا پھر دوسرے ہائی رسک گروپس کو کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد ذہنی دباؤ کو سہارنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صحت یابی کے عمل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے ذہنی دباؤ کو اہم معاملے کے طور پر لیا جائے اور مناسب انداز سے نمٹا جائے۔‘

شیئر: