Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا عید کے بعد نیب ’جھاڑو پھیرے گا؟‘

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ عید کے بعد نیب ’جھاڑو پھیر دے گا اور اس میں دونوں اطراف کے سیاستدان شامل ہوں گے۔‘ رمضان کے آخری ایام میں قومی احتساب بیورو( نیب) کی طرف سے سامنے آنے والی خبروں اور  نوٹسز سے بھی کسی حد تک شیخ رشید کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔
ایک طرف تو اپوزیشن کے چوٹی کے سیاستدانوں کو نیب کی طرف سے بلاوے آئے ہیں تو دوسری طرف دو وفاقی وزرا کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز ہوا ہے اور آٹے اور چینی کے بحران کے حوالے سے کام کرنے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں بھی ذمہ داروں کے خلاف نیب کو کیسز بھیجنے کی سفارش کی گئی ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے نیب کے ترجمان نوازش علی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ  نیب قانون کے مطابق چلنے والا ایک ادارہ ہے اور وہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ’قانون اپنا راستہ بنائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آٹے چینی بحران کے حوالے سے نیب نے پہلے ہی نوٹس لے رکھا ہے اب عید کے بعد اس کیس کو دیکھا جائے گا جب  نیب کو تحقیقاتی رپورٹ بھیجی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ اپوزیشن یا حکومتی  رہنماوں کے بیانات پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔

اپوزیشن رہنماوں کے خلاف نیب کیسز میں پیش رفت

نیب ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے چئیرمین آصف زرداری ان کی بہن فریال تالپور، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور دیگر رہنماؤں کے حوالے سے جعلی اکاؤنٹ کیسز کی تحقیقات میں خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اور اس پر عید کے بعد ریفرنسز فائل کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیسز میں آصف زرداری اور فریال تالپور نیب کی حراست میں بھی رہ چکے ہیں۔ دونوں رہنما نیب کیسز میں لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
دوسری طرف نیب ذرائع کے مطابق سابق مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں  شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور دیگر کے خلاف ایل این جی درآمد کیس میں نیب نے احتساب عدالت کی ہدایت پر ضمنی ریفرنس دائر کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے اور عید سے چند دن قبل مفتاح اسماعیل نیب میں پیش بھی ہوئے تھے۔  اس کیس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کو عید کے بعد دوبارہ بھی طلب کیا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ  پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے خلاف پنجاب میں نیب آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس اور منی لانڈرنگ کیسز میں تحقیقات جاری ہی تھیں کہ نیب ملتان کی جانب سے انہیں چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیس میں شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔

نیب کے حال ہی میں جاری اعلامیے کے مطابق چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے افسران، عہدیداران، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق رکن قومی اسمبلی بلیغ الرحمٰن، چوہدری عمر محمود ایڈووکیٹ سمیت دیگر کے خلاف انکوائری کی جا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ نیب ملتان، چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی 14 ہزار400 کینال زمین کو لال سوہانرا نیشنل پارک کے 144 متاثرین کو الاٹمنٹ کی انکوائری کررہا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید پہلے ہی پیش گوئی کر چکے ہیں کہ کورونا لاک ڈاؤن شہباز شریف کے لیے لاک اپ کا پروگرام ہے۔

 وفاقی وزرا کے خلاف نیب تحقیقات

نیب کے چیئرمین متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ فیس نہیں کیس دیکھتے ہیں جس کا مطلب وہ یہ بتاتے ہیں کہ نیب اپوزیشن یا حکومت میں کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ تاہم اس فلسفے پر زیادہ عمل حال ہی میں دیکھنے میں آیا جب نیب نے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کے بعد وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کے خلاف آنے والی شکایت کی تحقیقات کا عمل شروع کر دیا۔ نیب ایگزیکٹو بورڈ نے گذشتہ ہفتے وزارت مذہبی امور کے افسران کے خلاف شکایت پر انکوائری کی منظوری دی تھی۔ترجمان نیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کے خلاف نیب کو شکایت موصول ہوئی تھی جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے وزارت کی عمارت غیر قانونی طریقے سے اپنے دوست کو ہائرنگ پر دی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کے خلاف بھی آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تحقیقات جاری ہیں۔ نیب نے محکمہ مال راولپنڈی سے 15 مئی تک ان کی تمام جائیدادوں کا ریکارڈ طلب کیا تھا جو ابھی تک فراہم نہیں کیا جا سکا۔ غلام سرور خان نے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران خود کو نیب کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نیب ذرائع کے مطابق ان کے کیس کو بھی انکوائری کے مرحلے کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
نیب ذرائع کے مطابق حکمران  پی ٹی آئی کے سابق وزیر صحت عامر کیانی کے خلاف ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے کیس پر بھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اور اسے شکایت کی تصدیق کے عمل سے آگے بڑھا کر باقاعدہ انکوائری کی شکل دی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت کسی بھی فرد کے خلاف آنے والی شکایت کی پہلے تصدیق اور جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ شکایت درست ہونے کی صورت میں دوسرا مرحلہ انکوائری کا ہوتا ہے جس میں ریکارڈ وغیرہ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے پر تفتیش کی جاتی ہے جس کے لیے ملزم کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے اور چوتھا یا حتمی مرحلہ ملزم یا ملزمان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے۔
نیب ذرائع کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت میں اب ججوں کی تین آسامیاں پر ہو جانے کی وجہ سے امید ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی  احتساب عدالتوں میں بھی کیسز پر پیش رفت میں تیزی آئے گی۔

آٹے چینی سکینڈل کے ذمہ داروں کے خلاف نیب کیسز

نیب ذرائع کے مطابق جس طرح سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پانامہ کیسز سپریم کورٹ کی طرف سے نیب کو ریفر کیے گئے تھے اسی طرح نیب حکام کو توقع ہے کہ حکومت  آٹے چینی سکینڈل کیس میں ذمہ دار قرار دیے گئے افراد کے خلاف کیسز بھی نیب کو ریفر کرے گی۔ 
تاہم یاد رہے کہ اس کیس میں نیب چئیرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال پہلے ہی اپریل میں نوٹس لے کر تحقیقات کی منظوری دے چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے حکومت کی طرف سے جاری شوگر فرانزک رپورٹ میں پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین سمیت حکومت اور اپوزیشن کے متعدد سیاستدانوں کو حکومتی حزانے سےناجائز سبسڈی لینے اور قیمتیں ناجائز طور پر بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ نیب سے درخواست کی جائے کہ وہ عوامی عہدوں پر فائز افراد اور ان کے قریبی عزیزوں اور دوستوں کے چینی کارخانوں کے ان عوامل کی تفتیش کریں جو کہ نیب آرڈنینس کے تحت قابل سزا جرم ہیں۔ اس کے علاوہ قومی خزانے سے سبسڈی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی بھی تحقیقات کریں۔

نیب ترمیمی آرڈینیس سے اختیارات میں کمی

دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے گذشتہ سال نیب ترمیمی آرڈنینس کے اجرا کی منظوری کے بعد نیب کے اختیارات میں خاصی کمی واقع ہو گئی ہے۔ گو کہ آرڈنینس اپنی مقررہ 120 دن مدت  پوری کرنے کے بعد غیر فعال ہو چکا ہے اور اب  پالیمنٹ کی منظوری کا محتاج ہے مگر اس ترمیم کی وجہ سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیب اس شدو مد سے سیاسی رہنماوں اور کاروباری شخصیات کے خلاف تحقیقات کو آگے نہیں بڑھا سکے گا جو ماضی میں اس کا خاصہ رہا ہے۔
گذشتہ سال 27 دسمبر کو صدر عارف علوی نے نیب ترمیمی آرڈنینس کی منظوری دی تھی جس کے تحت کاروباری شخصیات، سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے خلاف کاروائی کے حوالے سے نیب کے اختیارات میں کمی کی گئی تھی۔ گو کہ آرڈنینس کا بظاہر مقصد کاروباری طبقے کو ریلیف دینا اور سرکاری افسران میں نیب کے خوف کے باعث کام نہ کرنے کے رجحان کو ختم کرنا تھا مگر اس سے سیاستدانوں کو بھی کسی حد تک ریلیف ملا تھا کیونکہ اس کے ذریعے ’اختیارات کے ٖغلط استعمال‘ اور اچھے ’ارادوں کے ساتھ اٹھائے گئے اقدامات‘ کی دوبارہ قانونی تشریح کی گئی تھی۔
ترمیم کے تحت  نیب اگر کسی مشکوک فرد کے خلاف تین ماہ تک تحقیقات مکمل نہ کر سکے تو اس کو ضمانت کا حق مل جائے گا اس کے علاوہ کاروباری افراد پر ٹیکس، محصولات وغیرہ کے کیسز کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ حکومت کو اس ترمیمی قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے لیے اپوزیشن کی حمایت درکار ہو گی کیونکہ سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا پلڑا بھاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اب چاہتی ہے کہ قانون میں مزید ترمیم کر کے نیب کے گرفتاری، ریمانڈ اور جائیداد کی ضبطی کے اختیارات کو بھی کم کر دیا جائے۔ 
وفاقی وزیر شیخ رشید کہہ چکے ہیں کہ وہ اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے جسے بعض لوگ این آر او بھی قرار دیتے ہیں تاہم آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا کہ ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کا فیصلہ کیا ہو گا۔
 

شیئر: