Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ہتھنی کی ہلاکت پر فرقہ وارانہ بحث چھڑ گئی

ہتھنی کو انناس میں بارود کھلا کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ایک ہاتھی کی موت نے جہاں بے شمار لوگوں کو جذباتی طور پر بے چین کیا ہے وہیں اسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر منافرت پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ 
انڈیا میں کسی بڑے معاملے کو سیاسی رنگ دینا بہت آسان ہے لیکن حالیہ واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر کیرالہ کے وزیر اعلیٰ نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجیین نے جمعرات کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ہتھنی کی موت کے سلسلے میں تین مشتبہ افراد کی شناخت کی گئی ہے اور اس کی جانچ ریاستی پولیس اور محکمہ جنگلات مشترکہ طور پر کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انصاف کی بالا دستی قائم کی جائے گی۔
لیکن دریں اثنا مرکز میں حکمراں جماعت بی جے پی کی رکن پارلیمان اور جانوروں کے حقوق کی علمبردار مینکا گاندھی نے خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا لیکن اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر مینکا گاندھی کو ان کے بیان کے لیے ٹرول کیا جا رہا ہے۔
مینکا گاندھی نے اے این آئی کو بتایا کہ یہ واقعہ ملاپورم میں ہوا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 70 فیصد ہے اور یہ علاقہ پلککڈ ضلعے سے 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان کی اس بات کی بڑے پیمانے پر تردید کی گئی ہے کیونکہ یہ واقعہ ملاپورم کے بجائے پلک کڈ میں پیش آیا تھا۔

مظاہرین نے ہاتھی کے بے دردی سے مرنے پر احتجاج کیا۔ فوٹو اے ایف پی

انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'یہ قتل ہے اور ملاپورم ایسے واقعات کے لیے بدنام ہے اور وہ انڈیا کا سب سے پر تشدد ضلع ہے، مثال کے طور پر وہاں سڑک پر وہ لوگ زہر پھینک دیتے ہیں جس سے تین سو سے چار سو چڑیاں ایک ساتھ مر جاتی ہیں۔'
ان کے اس بیان سے بظاہر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے اور اس کے بعد ہی ہتھنی کے قتل کے لیے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
وزیر اعلیٰ پینارائی نے کسی کا نام لیے بغیر ٹویٹ کیا ’ہمیں اس حقیقت سے دکھ پہنچا ہے کہ بعض لوگوں نے اس سانحے کا نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ غلط معلومات اور نیم سچائی پر جھوٹ پھیلانا سچائی کو ختم کرنا ہے۔ بعض نے تو اس بیانیے میں تعصب کو بھی شامل کر دیا۔ غلط ترجیحات۔'
دوسری جانب انڈیا میں ماحولیات کے وزیر پرکاش جاوڑیکر نے بھی مینکا گاندھی کے بیان کے بعد اسی انداز میں ہھتنی کی موت پر سخت ٹویٹ کیا اور واقعے کو ملا پورم کا بتایا۔ انھوں نے لکھا 'مرکزی حکومت نے کیرالہ کے مل اپورم میں ہاتھی کی موت کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا ہے۔ ہم لوگ مجرم کو پکڑنے میں تمامتر کوششیں کر رہے ہیں۔ مارنے کے لیے پٹاخے کھلانا ہندوستان کی تہذیب نہیں ہے۔'
پرکاش جاوڑیکر کے بیان پر بھی بہت سے لوگوں نے غلط معلومات دینے پر معافی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ایک صارف نے لکھا ہے کہ 'کیا مرکزی حکومت یہی جوش و جذبہ شرمک سپیشل ٹرینوں میں انسانوں کی موت پر بھی دکھائے گی۔'
مینکا گاندھی کے بیان پر ایک صارف امورتھا ایس نایر نے لکھا ہے کہ 'ملا پورم کے بارے میں اس طرح کے بیان سے قبل مینکا گاندھی کو پرتشدد اضلاع کے اعداد و شمار دیکھنے چاہیے تھے۔ انھیں ہمارے ضلعے کے بارے میں نفرت انگیز بیان کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔'
اس کے ساتھ ہی انھوں نے ملاپورم ضلعے اور اترپردیش کے سلطان پور ضلعے کے اعدادوشمار ٹویٹ کیے جس میں دونوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ سلطان پور وہ ضلع ہے جہاں سے مینکا گاندھی جیت کر رکن پارلیمان بنی ہیں۔ اس طرح کے اعداد و شمار بہت سے دوسرے صارفین نے بھی شیئر کیے ہیں۔
پرنٹ انڈیا کی مدیر رما لکشمی نے اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر ٹویٹ کیا 'انڈیا میں واٹس اپ اور ٹوئٹر اس طرح کام کرتا ہے۔ ایک ہاتھی مرتا ہے اور لوگ کہنے لگتے ہیں کہ کیرالہ میں لیفٹ (کمیونسٹ) اور اسلام پسند ہاتھیوں کو مارنا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں ہندوؤں کے تیوہاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس پر یقین کرتے ہیں تو آپ کو 'مسلم فتور سنڈروم'  نام کی بیماری ہے۔'
ٹوئٹر پر ریاست بہار کی ایک اور ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس کے مطابق 300 نیل گائے کو زندہ دفنایا گیا ہے تاکہ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جا سکے۔ 
خیال رہے کہ کیرالہ کے پلککڈ ضلعے میں یہ واقعہ مئی کے اواخر میں پیش آیا تھا جب ایک ہتھنی کو انناس میں بارود کھلا کر زخمی کر دیا گیا اور تین دنوں بعد 27 مئی کو وہ ندی میں کھڑی کھڑی ہلاک ہو گئی تھی۔
حکومت ہند کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں ہر سال سینکڑوں افراد ہاتھی کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ درجنوں ہاتھی انسان اور جانور کے درمیان تصادم میں ہلاک ہوتے ہیں۔ ہاتھی کے ہلاک ہونے کی سب سے بڑی وجہ بجلی کا جھٹکا ہے اور نصف سے زیادہ ہاتھی اسی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔

شیئر: