Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرمایہ کاروں نے ترک مارکیٹ سے آٹھ ارب ڈالر نکال لیے

استنبول سٹاک مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
ترکی سے غیر ملکی سرمایہ بہت تیزی سے واپس نکالا جا رہا ہے جو صدر رجب طیب اردوغان کی معاشی اہلیت پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
عرب نیوز کے مطابق رواں سال جنوری سے لے کر اب تک اوورسیز سرمایہ کاروں نے ترک سٹاک سے آٹھ ارب ڈالر کی رقم واپس نکالی ہے جس کے بعد مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق استنبول سٹاک ایکسچینج میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 32 ارب ڈالر سے کم ہو کر 24 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سال 2013 تک یہ سرمایہ 82 ارب ڈالر تھا اور 16 برس میں پہلی بار یہ ہوا کہ سٹاک میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 50 فیصد سے کم ہو گیا۔
براؤن برادرز ہریمین کے کرنسی سٹریٹجی کے سربراہ ون تھِن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ترکی سے غیرملکی سرمایہ نکلنے کی دو وجوہات ہیں، ایک اندرونی اور دوسری بیرونی وجہ ہے۔
’بیرونی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کار کورنا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے دوران ایسی مارکیٹس سے نکلتے ہیں جہاں رسک ہو۔ اسی طرح کچھ سرمائے کا بہاؤ واپس آتا ہے مگر سرمایہ کار بہت زیادہ دانشمند ہوتے ہیں جبکہ ترکی کچھ زیادہ پرکشش مارکیٹ نہیں۔‘
ون تھِن کے مطابق دوسری جانب اندرونی وجوہات کو دیکھا جائے تو ترک پالیسی سازوں نے غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے ترکی میں رقم لانا مشکل بنایا ہے۔
’عبوری اقدامات کے ذریعے سٹاک میں فرضی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش نے اصل سرمائے کو بھی ترکی میں لایا جانا مشکل بنا دیا ہے۔ ان مسائل کے علاوہ ترکی کے بیادی اقدامات دیگر ایمرجنگ مارکیٹس کے مقابلے میں کمزور ہیں۔‘
صدر اردوغان کے اتحادی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بین الاقوامی عناصر استنبول سٹاک مارکیٹ میں خود کار ٹریڈنگ کے ذریعے گڑ بڑ کرتے ہیں۔ اتحادیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرے جن سے ایسے سرمایہ کاروں کو ترک اثاثوں میں تجارت کرنا مشکل ہو جائے۔
عرب نیوز کے مطابق گولڈ مین ساش، جے پی مورگن، میرل لنچ، بارکلیز اور کریڈٹ سوئسی کو رواں ماہ سے ترکی میں سودوں سے روک دیا گیا ہے اور یہ پابندی تین ماہ تک عائد رہے گی۔ اسی طرح بعض مقامی قرض دینے والی کمپنیوں کو بھی بینکنگ ریگولیٹر کی جانب سے سٹی گروپ، بی این پی پیریبس اور یو بی ایس کے ساتھ مقامی کرنسی لیرا میں مختصر عرصے کے لیے کاروبا سے روکا گیا تھا۔

ترک کرنسی لیز کو ڈالر کے مقابلے میں چیلنجز درپیش ہیں۔ فوٹو: روئٹرز

عرب نیوز کے مطابق ترک حکام نے گزشتہ برس جے مورگن سے اس وقت تفتیش بھی کی تھی جب اس بینک نے ایک رپورٹ میں اپنے صارفین سے کہا تھا کہ وہ ترک کرنسی لیرا کو بیچیں۔ ریسرچ کی بنیاد پر سٹاک ایکسچینج کے جائزہ پیش کرنے والے ایم ایس سی آئی نے گزشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ وہ ترکی کو ایمرجنگ مارکیٹس کے سٹیٹس سے فرنٹیئر مارکیٹ کے سٹیٹس میں ڈال سکتا ہے کیونکہ وہ شارٹ سیلنگ اور سٹاک میں قرضوں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق غیرملکی سرمایہ کا نکلنا ترک معاشی ترقی کو کمزور کر سکتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے پہلے ہی سرمایہ کاری کم ہو چکی ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے جبکہ ترک کرنسی لیرا کو بھی چیلنجز درپیش ہیں۔

شیئر: