Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان کی خواتین موسیقار خاموش، ’یادیں راکھ ہوگئیں‘

ملک کے کچھ حصوں میں طالبان نے ریڈیو سٹیشنز کو موسیقی نہ چلانے کا حکم دیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
نگین خپلواک کابل میں اپنے گھر میں موجود تھیں جب ان کو پتا چلا کہ طالبان دارالحکومت کے مضافات تک پہنچ گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان کی مشہور آل فیمیل آرکسٹرا کی 24 سالہ کنڈکٹر یہ خبر سن کر خوف کا شکار ہوئیں۔
طالبان کے پہلے دور حکومت میں موسیقی پر پابندی تھی اور خواتین کو کام کی بھی اجازت نہیں تھی۔
طالبان کے آنے کی خبر سننے کے بعد نگین خپلواک نے جلدی سے اپنے کھلے بازوؤں کو ڈھانپنے کے لیے ایک کپڑا لیا اور اپنے آرائیشی ڈرمز چھپائے اور اس کے بعد انہوں نے تصاویر اور میوزیکل پرفارمنس سے متعلق پریس کلپنگس جمع کیں اور ان کو جلایا۔
’مجھے بہت خوف محسوس ہو رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری زندگی کی ساری یادیں راکھ میں بدل گئی ہیں۔‘
نگین خپلواک امریکہ منتقل ہو گئی ہیں۔ اس آرکسٹرا کا نام زہرہ ہے۔ اس میں کابل کے یتیم خانے کی لڑکیاں اور خواتین شامل ہیں۔ ان کی عمریں 13 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ یہ آرکسٹرا 2014 میں قائم ہوا تھا۔
زہرہ آرکسٹرا کے اس گروپ نے سڈنی اوپرا ہاؤس سے ڈیوؤس میں ورلڈ اکنامک فورم تک لوگوں کو تفریح فراہم کی۔
لیکن اب طالبان بند افغانستان انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کے باہر کھڑے ہیں اس گروپ نے یہاں پریکٹس کی تھی۔
ملک کے کچھ حصوں میں طالبان نے ریڈیو سٹیشنز کو موسیقی نہ چلانے کا حکم دیا ہے۔

زہرہ آرکسٹرا میں زیادہ تر لڑکیاں موسیقار تھیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

افغانستان انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کے بانی احمد سرمست کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کبھی یہ توقع نہیں تھی کہ افغانستان پتھر کے دور میں واپس چلا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ زہرہ آکسٹرا نے افغانستان میں آزادی اور بااختیار خواتین کی نمائندگی کی اور اس کے اراکین نے ’ثقافتی سفیر‘ کے طور پر کام کیا۔
احمد سرمست جنہوں نے آسٹریلیا سے ٹیلی فون کے ذریعے روئٹرز سے بات کی، نے کہا کہ طالبان نے عملے کو انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہونے سے روکا۔
انہوں نے کہا ’زہرا آرکسٹرا کی لڑکیاں اور سکول کے دیگر لوگ اپنی زندگیوں کے لیے خوفزدہ ہیں اور وہ روپوش ہیں۔‘
طالبان کے ایک ترجمان نے انسٹی ٹیوٹ کے مستقبل سے متعلق سوالوں کے فوری جوابات نہیں دیے۔
طالبان نے کہا تھا کہ شریعت کے اندر ثقافتی سرگرمیوں اور خواتین کو ملازمت کی اجازت ہوگی۔
15 اگست کو نگین خپلواک نے تو موسیقی سے متعلق اپنی یادوں کو جلا دیا تاہم ان کے کچھ ساتھی اکتوبر میں ہونے والے ایک بڑے بین الاقوامی دورے کی تیاری کر رہے تھے۔

زہرہ آرکسٹرا آرکسٹرا 2014 میں قائم ہوا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

دس بجے کے دوران میوزک سکول کے سکیورٹی گارڈ ریہرسل والے کمرے میں پہنچے اور موسیقاروں کو بتایا کہ طالبان قریب پہنچ گئے ہیں۔
احمد سرمست کا کہنا ہے کہ جلدی نکلنے کی کوشش میں کئی موسیقاروں نے اپنے آلات چھوڑ دیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کو موسیقی کے طلبہ کی جانب سے کئی پیغامات وصول ہوئے اور ان سے مدد کی اپیل کی۔
کابل میں موسیقاروں کو درپیش خطرہ اس وقت سامنے آیا جب 2014 میں ایک فرانسیسی میوزک سکول میں خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں احمد سرمست زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
گذشتہ 20 سالوں میں مغربی حمایت یافتہ حکومت میں شہری آزادیاں تو حاصل تھی لیکن پھر بھی زہرہ آرکسٹرا کے موسیقاروں کو قدامت پسند خاندانوں سے اپنے موسیقی کے آلات چھپانے پڑتے۔
زہرہ انسٹی ٹیوٹ کی سابق چیلسٹ نذیرہ ولی جو اب امریکہ میں مقیم ہیں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے لیے فکرمند اور پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آگر معاملات ایسے ہی چلتے رہیں تو افغانستان میں کوئی موسیقی نہیں بچے گی۔‘

شیئر: