Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لیڈیز گالف کے فروغ کے لیے سعودی عرب میں ٹورنامنٹ اہم‘

گالف پچھلے سال رک گیا تھا، ہمارے کھلاڑی مقابلہ نہیں کر رہے تھے( فائل فوٹو عرب نیوز)
لیڈیزیورپین ٹورکی چیف ایگزیکٹو آفیسر الیکس آرماس کے مطابق سعودی عرب میں لیڈیز گالف کو وسیع ہیمانے پر متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔
عرب نیوز کے مطابق الیکس آرماس چار سے سات نومبر تک پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی جانب سے آرامکو سعودی لیڈیز انٹرنیشنل کی واپسی سے قبل بات کر رہی تھیں۔ اس ٹورنامنٹ نے گزشتہ سال تاریخ رقم کی تھی جس کا انعقاد سعودی عرب میں پہلے وومن پرفیشنل سپورٹس ایونٹ کے طور پر کیا گیا تھا۔
انفرادی ایونٹ نے ایل ای ٹی سیزن کو دوبارہ شروع کرنے میں مدد دی جو کورونا کی وبا کے دوران مکمل طور پر رک گیا تھا جس سے اس کے پروفیشنل کھلاڑی متاثر ہوئے تھے۔ ٹورنامنٹ کنگ عبد اللہ اکنامک سٹی میں رائل گرینز گالف اور کنٹری کلب میں واپس آیا ہے۔
الیکس ارماس نے کہا کہ ’ پچھلے سال ہمیں جو ردعمل ملا اس نے سب کے ذہن اڑا دیے تھے۔‘
’ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہم سعودی عرب میں لائیو ٹیریسٹریل ٹی وی پر ہونے اور اس سے ملنے والی کوریج سے دلچسپی حاصل کرنے والے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم آگے بڑھ کر یہی کریں گے۔ گالف سعودی خواتین کے کھیل کے لیے بڑے منصوبے رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہم صرف شروعات میں ہیں اور یہ تیز رفتار رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گالف پچھلے سال رک گیا تھا۔ ہمارے کھلاڑی مقابلہ نہیں کر رہے تھے۔ ہم کچھ رفتار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ہم آرامکو سعودی لیڈیز انٹرنیشنل کے ساتھ جدہ میں پہلا ایونٹ کرانے میں کامیاب ہو ئے جیسا کہ ہمارے پاس کھلاڑی موجود تھے ہم نے ٹیم ایونٹ کے ساتھ بیک ٹو بیک ٹورنامنٹس منعقد کیے۔‘
الیکس آرماس نے کہا کہ ’ ہم نے تاریخ رقم کی، مجھے لگتا ہے کہ جب ہم پہلی بار گئے تو ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا توقع کرنی ہے لیکن اب کھلاڑی جان چکے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ گالف کورسز کیسے ہوں گے اور مہمان نوازی کیسی ہو گی، ہر کوئی واپس آنے کے لیے منتظر ہے۔‘
آرامکو ٹیم سیریز جدہ میں 10 سے 12 نومبر تک اسی مقام پر گالف سعودی کے ساتھ ایل ای ٹی سے منظور شدہ ایونٹس کے ڈبل ہیڈر کے لیے پیروی کرے گی۔
آرامکو ٹیم سیریز کی کامیابی جو کہ لندن، سپین اورامریکہ میں ہوئی ہے نے بین الاقوامی وومن سپورٹس کے چیلنجوں اور گالف میں صنفی مساوات کو حل کرنے پر روشنی ڈالی ہے۔
الیکس آرماس نے مزید کہا کہ’وومن سپورٹس میں ایک چیلنج ہے۔ ہمیں مردوں کی کوریج نہیں ملتی لیکن اس میں ایک تبدیلی ہے اورمساوات کی تحریک اور کارپوریٹ کمپنیاں احساس کر رہی ہیں کہ عدم توازن ہے۔ ہمیں انہیں اور ان کی کہانیوں اور ناقابل یقین سفر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ خواتین کتنی اچھی کھلاڑی ہیں اوراگر انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ وہ مقابلہ کر سکتے ہیں۔ وہ مردوں کی طرح اچھی کھلاڑی ہیں۔‘
انہوں نے سعودی عرب جیسی سپورٹس کی بڑھتی ہوئی مارکیٹوں میں فعال شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے وومن سپورٹس کے نمایاں ہونے کی اہمیت کا بھی حوالہ دیا۔ پچھلے سال کے واقعات آرامکو کے ذریعے چلنے والے لیڈیز فرسٹ کلب کے آغاز کے ساتھ موافق تھے۔ ایک گالفنگ انیشیٹو جس نے ٹورنامنٹ کے چار دن میں گیم سیکھنے کے لیے 1200 خواتین اور لڑکیوں کو رجسٹر کیا۔
’میرے خیال میں ایسا کرنے کا بہترین طریقہ واضح طور پر ٹی وی پر براہ راست کھیلوں کے ذریعے ہے اور لوگوں کے لیے ان کھلاڑیوں سے متاثر ہو کر انہیں رول ماڈل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ سعودی مملکت میں کھیلوں کے بہت سارے ایونٹس کا ہونا مختلف کھیلوں میں بڑھتی ہوئے شرکت کے لیے بہت اہم ہو گا۔ لیڈیز فرسٹ کلب کے لیے سائن اپ کرنے والے کی تعداد اور مثبت آرا کی مقدار بہت زیادہ تھی۔‘
 

 

شیئر: