Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کام روک دیں ورنہ۔۔۔‘ ایل او سی پر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے دھمکی آمیز اعلان

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع نیلم کے گاؤں چلہیانہ میں لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب انڈین زیر انتظام کشمیر کے ٹیٹوال سیکٹر سے بدھ کے روز انتباہی اعلانات کیے گئے جن میں لائن آف کنٹرول کے اِس جانب کے مقامی افراد کو تعمیرات روکنے کا کہا جا رہا تھا۔
بدھ کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام علاقے سے کچھ لوگ میگا فون پر اعلان کر رہے ہیں۔
ایک شخص پاکستان کے زیرانتظام علاقے کے گاؤں کے مکینوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ’آپ سے ہم پہلے بھی دو تین بار گزارش کر چکے ہیں کہ اس کام کو بند کر دو۔ لیکن آپ پر ہماری بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ اس لیے ہمیں دوسری کارروائی کرنی پڑے گی۔‘
’اس کام کو بند کیجیے۔ پروٹوکول کے حساب سے آپ اس جگہ کچھ بھی نہیں بنا سکتے۔
اس کے بعد چند سیکنڈ کے لیے ایک اور شخص میگا فون سنبھال کر کہتا ہے کہ ’میں یہاں کا نمبردار بول رہا ہوں۔ ہم سارے گاؤں والے آپ سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ کام بند کر دیجیے۔
پھر دوبارہ پہلے والا شخص بولنے لگتا ہے’پیچھے ہم جو کام کر رہے ہیں یہ ایل او سی سے دور ہے لیکن آپ جو کام کر رہے ہیں وہ پروٹوکول کے خلاف ہے۔ آپ جو کام کر رہے ہو وہ پانچ سو میٹر فاصلے کے اندر میں آتا ہے اور جو ہمارا کام ہو رہا ہے وہ پانچ سو میٹر سے کافی دور ہے۔
’آپ جلدی سے اس کام کو بند کیجیے نہیں تو ہمیں دوسرے طریقے سے بند کروانا آتا ہے۔

 2020 میں انڈین فورسز کی جانب سے گولہ باری کے نتیجے میں ضلع نیلم میں متعدد مکانات جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ (فوٹو: امیر الدین مغل)

’فی الحال کام روک دیا گیا ہے

اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر نیلم شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ’آپ کی طرح ہم نے بھی یہ اعلانات سنے ہیں۔ ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ باقاعدہ موقف ہم آپ کو کسی انکوائری کے بعد ہی دے سکتے ہیں۔
تاہم تحصیل آٹھمقام کے اسسٹنٹ کمشنر عمران عباس نقوی کہتے ہیں کہ ’یہ واقعہ چلہیانہ میں پیش آیا۔ لائن آف کنٹرول کے اس مقام پر دونوں جانب آبادی موجود ہے۔ جو شخص یہاں تعمیرات کر رہا تھا، اس نے این او سی کے لیے بھی درخواست دے رکھی ہے۔ فی الحال کام روک دیا گیا ہے۔
شہریوں کو اپنی ملکیتی زمینوں پر تعمیرات کے لیے این او سی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں عمران عباس نقوی کا کہنا تھا کہ’ ہر جگہ ایسا نہیں ہے لیکن بعض مقامات پر لائن آف کنٹرول سے جڑی حساسیت کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ سے این او سی لینا ضروری ہوتا ہے۔
نیلم کے صحافی اور صدر نیلم پریس کلب عثمان طارق چغتائی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چلہیانہ میں پاکستان کے زیر انتظام علاقے میں محمد عمر نامی شخص اپنی زمین پر گیسٹ ہاؤس تعمیر کر رہا تھا۔ تاہم انڈین زیر انتظام علاقے سے اعلانات کے بعد فورسز نے یہ تعمیرات رکوا دی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ’ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی جانب سے ایسی سویلین تعمیرات پر کوئی فائرنگ کی گئی ہو۔
’یہ اس نوع کا پہلا واقعہ ہے۔
لائن آف کنٹرول کے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں مقیم صحافی امیرالدین مغل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چلہیانہ میں دونوں جانب سویلین اور سرکاری عمارات موجود ہیں۔ بعض جگہوں پر تو ان کا لائن آف کنٹرول سے فاصلہ 100 میٹر سے بھی کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میری یادداشت میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ انڈین فورسز نے باقاعدہ اعلان کر کے دوسری جانب کی سویلین آبادی کو اپنی ہی زمین پر تعمیرات سے روکا ہو۔‘

لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے میں نیلم کی آبادی، جنگلات اور جنگلی حیات کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑے۔ (فوٹو: امیر الدین مغل)

’اس حوالے سے اگر کوئی حساسیت تھی تو فورسز کے درمیان ہاٹ لائن پر بھی رابطہ کیا جا سکتا تھا۔
’بعض انڈین چینلز نے اس ویڈیو کے ذریعے یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کے زیرانتظام علاقے میں کوئی فوجی تعمیرات ہو رہی ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد کئی انڈین اخبارات اور ٹی وی چینلز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر کپواڑہ کے ٹیٹوال سیکٹر کے سامنے تعمیراتی سرگرمی جاری تھی، جسے رکوا دیا گیا ہے۔

واقعہ کہاں پیش آیا؟

چلہیانہ ضلع نیلم کے صدر مقام آٹھمقام سے چند کلومیٹر پیچھے واقع ایک گاؤں ہے، جہاں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیری آبادی مقیم ہے۔
اس مقام پر انڈین اور پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے درمیان حدِفاصل دریائے نیلم ہے جس پر ایک آہنی پل بھی موجود ہے۔
وہاں سامنے انڈیا کے زیر انتظام علاقے میں ایک بڑا قصبہ ہے جہاں گنجان آبادی کے علاوہ سرکاری دفاتر، ایک کالج اور اس کا وسیع گراؤنڈ بھی موجود ہے۔
پل کے دوسرے سرے سے چند میٹر کے فاصلے پر انڈین فورسز کی چیک پوسٹ بھی واضح دکھائی دیتی ہے۔
یہ وہی مقام ہے جہاں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنہ 2003 میں ہونے والے سیز فائر معاہدے کے بعد آر پار کے کشمیری خاندان دریا کے دونوں اطراف جمع ہو کر ایک دوسرے سے ’ملاقات‘ کیا کرتے تھے۔
انہیں درمیان میں بہنے والے دریائے نیلم کی موجوں کے شور سے اپنی آواز اونچی رکھنا پڑتی تھی اور کئی بار وہ کنکروں کے ساتھ خط باندھ کر ایک دوسرے کی جانب بھی اچھالا کرتے تھے لیکن اب طویل عرصے سے یہ سلسلہ بند ہے۔

لائن آف کنٹرول پر سیز فائر سمجھوتہ

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا ضلع نیلم معروف سیاحتی مقام ہے۔ اس علاقے کو دارالحکومت مظفرآباد سے جوڑنے والی مرکزی شاہراہ دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور یہاں کئی مقامات پر متنازع ریاست جموں کشمیر کے انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام علاقے بالکل آمنے سامنے ہیں۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا ضلع نیلم معروف سیاحتی مقام ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

ماضی میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے میں یہاں کی آبادی، جنگلات اور جنگلی حیات کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑے۔ ماضی قریب میں وادی نیلم میں 13 نومبر 2020 کو انڈین فورسز کی جانب سے گولہ باری کے نتیجے میں متعدد مکانات جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔
تاہم رواں برس 25 فروری کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان لائن آف کنٹرول اور دیگر سیکٹرز پر سیز فائر کی خلاف ورزی نہ کرنے پر اتفاق ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان کی فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے پاکستان انڈیا کے ڈی جی ایم اوز کے ہاٹ لائن پر رابطے اور سیز فائز کی خلاف وزری نہ کرنے پر اتفاق کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’اس رابطے کے نتیجے میں سنہ 2003 کے سیزفائز معائدے پر من و عن عمل ہوگا۔
یاد رہے کہ انڈیا کی مرکزی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو ایک قانون کے ذریعے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خودمختار حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے انڈیا کی یونین ٹیریٹریز میں بدل دیا تھا۔
اس فیصلے سے قبل ہی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کے ساتھ ساتھ وہاں کی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کو نظربند یا گرفتار کر لیا گیا تھا۔
فروری 2020 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر لائن کی پابندی سے متعلق سمجھوتہ پانچ اگست 2019 کو پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کے بعد بڑا واقعہ سمجھا گیا تھا۔

شیئر: