Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں برفباری کے استقبال کی دلچسپ رسومات

عبدالرؤف رفیقی نے بتایا کہ بڑوں کے علاوہ بچے بھی اپنے انداز میں برفباری اور برسات کا استقبال کرتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
دنیا بھر میں موسموں سے جڑے کئی تہوار اور رسومات ہیں۔ گرمی، سردی خزاں ہو یا بہار سب کے اپنے رنگ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر بدلتے موسم کا اپنے اپنے انداز میں استقبال کیا جاتا ہے۔
خشک سالی کے خطرے سے دو چار بلوچستان کے بالائی علاقوں میں برفباری کو امید کی علامت اور خوشحالی کی نوید سمجھا جاتا ہے اس لیے اس کے آغاز پر روایتی طریقوں سے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
صوبے کے بعض علاقوں میں قدیم زمانے سے برف باری کی خوشی میں ایک دلچسپ رسم ہوتی ہے جس میں برف کا گولہ بنا کر کسی بھی بہانے سے اپنے قریبی دوست یا رشتہ دار کے گھر پہنچانے پر کھانے کی دعوت کا حقدار بنا جاسکتا ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں دعوت دینا پڑتی ہے۔
پشتو زبان میں اس برفانی تہوار کو ’واورین دود‘ یا برفباری کی رسم جبکہ فارسی اور دری میں ’برفی‘ کہا جاتا ہے۔
پشتو زبان کے ادیب و محقق عبدالرؤف رفیقی کے مطابق بلوچستان میں یہ رسم پشتون اکثریتی اورسرد و بالائی علاقوں زیارت، سنجاوی، خانوزئی، کان مہترزئی، ژوب، توبہ کاکڑی، توبہ اچکزئی اور کوہ خواجہ عمران میں اب بھی زندہ ہے اور لوگ اسے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ’زیادہ تر یہ رسم افغانستان اور تاجکستان میں سلسلہ کوہ ہندو کش کے قریب رہنے والے لوگ مناتے ہیں کیونکہ اس خطے میں زیادہ برفباری ہوتی ہے۔‘
عبدالرؤف رفیقی کے مطابق اس رسم کا ذکر پشتو کے معروف لکھاری سید رسول رساکے 1960 کی دہائی میں لکھے گئے ناول ’میخانہ‘ میں بھی ملتا ہے جس میں انہوں نے کابل میں برفباری کے دوران اس رسم کو نبھانے کے ایک واقعہ کی منظر کشی کی ہے۔

خشک سالی کے خطرے سے دو چار بلوچستان کے بالائی علاقوں میں برفباری کو امید کی علامت اور خوشحالی کی نوید سمجھا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہ رسم /کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے؟

سال کی پہلی برفباری کے بعد برف کا چھوٹا سا حصہ یا گولہ رومال، برتن، پھل یا کسی بھی چیز میں چھپا کر اسے کسی کے ہاتھ دوست یا رشتہ دار کے گھر بھیجا جاتا ہے۔
عموماً اس کے لیے ذہین، چست اور پھرتیلے نو عمر لڑکے کا انتخاب کیاجاتا ہے جسے یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ گھر والوں کی توجہ ہٹاکر کسی بہانے سے ان تک برف پہنچائے اور پھر جلد سے جلد بھاگ کر واپس آئے۔
اگر برف لے جانے والا فرار ہوکر واپس اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو جائے تو اسے کھیل کا فاتح سمجھا جاتا ہے اور پھر برف کا گولہ وصول کرنے والوں کو ان کے پورے خاندان کو دوپہر یا رات کے کھانے کی دعوت پر مدعو کرنا پڑتا ہے لیکن اگر وہ پکڑا جائے تو دعوت اس کے ذمہ ہوگی۔
بعض علاقوں میں برف کے اس گولے کے ساتھ ایک خط بھی شامل کیا جاتا ہے جس میں برف باری کو خوش آمدید کہنے سے متعلق شاعرانہ اسلوب میں کلمات اور ساتھ ہی دعوت کے اہتمام سے متعلق لکھا ہوتا ہے۔

پشتو زبان میں  برفانی تہوار کو ’واورین دود‘ یا برفباری کی رسم جبکہ فارسی اور دری میں ’برفی‘ کہا جاتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

عبدالرؤف رفیقی نے بتایا کہ وہ خود بھی یہ کھیل کھیل چکے ہیں اور انہوں نے گتے میں برف چھپا کر اسے کتاب کی شکل دی اور اپنے ایک دوست کو دی۔
ان کے بقول یہ ایک طرح کی مہم جوئی بھی ہوتی ہے اس میں پکڑے جانے کی صورت میں برف کے گولے مارنے کے ساتھ ساتھ بعض لوگ چہرے پر سیاہی بھی مل دیتے ہیں جبکہ کھیل کا فاتح فرد بڑے فخر اور فاتحانہ انداز سے اس کا ذکر کرکے اپنے دوستوں کو بھی دعوت پر ساتھ لے چلتا ہے۔
 کوئٹہ سے متصل پشین کے علاقے خانوزئی کے عبدالحمید کاکڑ نے بتایا کہ ’ہم بچپن میں بڑے شوق سے یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔ تب ہم کیلے یا مالٹے کو چھیل کراس میں برف چھپاکر اس طریقے سے واپس جوڑ دیتے تھے کہ اس کا پتہ نہ چل سکے۔‘
ان کے بقول گزشتہ 20 برسوں سے وہ اس جیسی کئی روایات اوبر رسومات کو آہستہ آہستہ ختم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
زیارت کے علاقے سنجاوی کے رہائشی خیال محمد دمڑ کہتے ہیں کہ ’ہمارے یہاں یہ کھیل نوجوانوں کی دو مختلف ٹیمیں تشکیل دے کر کھیلا جاتا ہے۔ برفباری کے بعد ایک ٹیم دوسرے کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ مقرر کردہ رات یا دن کے کسی بھی پہر برف کا گولہ پھینکنے آئے گی۔اس طرح رات کو سخت سردی میں پہرہ دے کر مخالف ٹیم کو پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘

عبدالرؤف رفیقی نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں یہ رسومات اب بھی زندہ ہیں مگر شہروں میں دم توڑ رہی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

بلوچستان جیسے خطوں میں جہاں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے برفباری کو ہریالی اور خوشحالی کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بھی پہلی برفباری پر مختلف طریقوں سے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
عبدالرؤف رفیقی نے بتایا کہ بڑوں کے علاوہ بچے بھی اپنے انداز میں برفباری اور برسات کا استقبال کرتے ہیں۔
’لڑکیاں گڑیا بنا کر اسے کپڑے اور دوپٹا پہنا کر گھر گھر جاتی ہیں اور گیت گا کر آٹا اور کھانے پینے کی اشیاء جمع کرتی ہیں جبکہ لڑکے راستہ بند کرکے لوگوں سے رقم جمع کرتے اور پھر اس سے نیاز بنا کر بانٹتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پہلے زمانے میں تفریح کے ذرائع کم تھے تو ایسی رسومات اچھی تفریح کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کا بھی باعث بنتی تھیں۔ ان کے بقول دیہی علاقوں میں تو یہ رسومات اب بھی زندہ ہیں مگر شہروں میں مختلف وجوہات کی بناء پر یہ رسومات دم توڑ رہی ہیں۔

شیئر: