Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس: ’جائے وقوعہ پر ڈرگ پارٹی رکھنے کی خیالی کہانی بنائی گئی‘

شاہ خاور نے کہا کہ ’مقتولہ نے گھر بھاگنے کی کوشش کی تو ملزم نے زبردستی انہیں گھر میں بند کیا۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کا مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
پیر کو نور مقدم قتل کیس میں تمام ملزمان کے وکلا نے اپنے حتمی دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد مدعی کے وکیل شاہ خاورنے بھی جزوی طور پر دلائل دیے۔
کیس کی آئندہ سماعت پر اب پراسیکیوشن کی جانب سے حتمی دلائل پیش کیے جائیں گے۔
ڈسٹرکٹ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں دوران سماعت مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ میڈیکل رپورٹ میں جسم میں ڈرگ کی وجہ سے بننے والے مادہ کی تصدیق ہوئی ہے تاہم یہ مادہ صدمے کے باعث بھی بنتا ہے۔
’ایک انسان کو اتنے بے دردی سے قتل کیا گیا اس وقت وہ گہرے صدمے سے گزرا ہوگا جس کی وجہ سے میڈیکل رپورٹ میں جسم میں مادے کی تصدیق ہوئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزم کے وکیل کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ جائے وقوعہ پر ڈرگ پارٹی رکھی گئی جبکہ 38 گھنٹے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ڈرگ پارٹی کے حوالے سے کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔
’جب مقتولہ گھر کے اندر داخل ہوئیں تو ان کے ساتھ کوئی بھی سامان نہیں تھا جبکہ ملزم اور مقتولہ جب ایئرپورٹ روانہ ہوئے تو اس وقت سامان کے بیگ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھے گئے جس میں ملزم کا سامان موجود تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مقتولہ نے گھر بھاگنے کی کوشش کی تو ملزم نے زبردستی انہیں گھر میں بند کیا جو کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی واضح ہے اس لمحے کے بعد ملزم نے زبردستی گھر میں قید کر لیا تھا۔‘
شاہ خاور نے کہا کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج میں ڈرگ پارٹی کے حوالے سے کوئی چیز سامنے نہیں آئی یہ ایک خیالی کہانی بنائی گئی ہے۔‘
’وکیل دفاع نے اس معاملے کو غیرت کے نام پر قتل کا رنگ دینے کی کوشش کی جبکہ ٹرائل کے دوران کبھی بھی دفاع کی جانب سے ایک بار بھی اس قسم کی کوئی بات ہی سامنے نہیں آئی۔‘
تھیراپی ورکس کے سی ای او کے وکیل نے کہا کہ پولیس نے میرے موکل پر شواہد چھپانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جبکہ تفتیش کے دوران ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی کہ تھیراپی ورکرز نے کوئی شواہد ضائع کیے یا جائے وقوعہ سے کسی ثبوت کو مٹایا ہو۔
حتمی دلائل کے دوران اکرم قریشی نے کہا کہ پراسیکیوشن کے پاس میرے موکل کے خلاف کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اکرم قریشی نے عدالت میں تھیراپی ورکس کے سی ای او اور مرکزی ملزم کے والد کے درمیان 20 جولائی کو ہونے والی گفتگو پڑھ کر سنائی۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اعلی عدلیہ یہ فیصلہ دے چکی ہے کال ریکارڈ ڈیٹا کو ٹرانسکرپٹ کے بغیر ٹھوس ثبوت کے طور پر نہیں مانا جا سکتا۔ استغاثہ کی جانب سے پیش کئے گئے کال ریکارڈ ڈیٹا کے ساتھ کوئی ٹرانسکرپٹ نہیں دیا گیا۔‘
اکرم قریشی نے عدالت میں تھیراپی ورکس کے سی ای او اور مرکزی ملزم کے والد کے درمیان 20 جولائی کو ہونے والی گفتگو پڑھ کر سنائی۔
انہوں نے کہا کہ 20 جولائی کی شام کو 7 بج کر 4 منٹ پر ذاکر جعفر نے طاہر ظہور (تھیراپی ورکس سی ای او) کو میسج کیا ’پلیز کال۔‘
اکرم قریشی کے مطابق طاہر ظہور اسلام آباد میں موجود نہیں تھے اور ان کا نمبر نہیں مل رہا تھا اس لیے انہوں نے پیغام بھیجا۔
دوسرے پیغام میں انہوں نے لکھا کہ ہم نے ڈاکٹر ارم سے میڈیکل انٹریونشن کے لیے رابطہ کیا ہے جبکہ تیسرے میسج میں لکھا ہے کہ ظاہر جعفر کو فوری طور پر داخل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پولیس کے بیان کے مطابق وہ جائے وقوعہ پر 9 بج کر 30 منٹ پر پر پہنچ چکے تھے اور انہیں کس نے اطلاع دی یہ کسی نے نہیں بتایا جبکہ تھیراپی ورکرز نے خود پولیس کو اطلاع دے دی تھی اور اگر وہ کوئی شواہد مٹانے وہاں گیے ہوتے تو کیا ملزم ان پر چاقو سے حملہ کرتا؟‘
’ورکرز وہاں دو گھنٹے تک موجود رہے اس دوران کوئی بھی ثبوت کرائم سین سے ختم کرنا ثابت نہیں ہوا۔‘
اکرم قریشی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’پولیس کے اہلکاروں کے بیان کے مطابق ساڑھے نو بجے رات کو پولیس افسران سمیت وہاں متعدد اہلکار موجود تھے اگر وہاں پولیس اہلکار موجود تھے تو انہوں نے ایف آئی آر کیوں نہیں درج کی؟‘
اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے اکرم قریشی نے کہا کہ کسی بھی گواہ نے تھیراپی ورکس کے ملازمین کے خلاف کوئی گواہی ہی نہیں دی، کسی سے رابطہ قائم ہونا کوئی جرم تو نہیں ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’پراسیکیوشن لگائے گئے الزامات کو ثابت نہیں کر سکی اور شک کا فائدہ تھیراپی ورکس کے ملازمین کو جاتا ہے۔‘

اسد جمال نے کہا کہ ملزم کے والدین کا مقصد اگر جرم چھپانا ہوتا تو وہ پہلی فلائٹ کے ذریعے ہی کراچی سے اسلام آباد نہ پہنچتے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پوری تفتیش میں یہ چیز چھپائی گئی کہ وقوعہ کی اطلاع کس نے دی؟ اگر گواہان کو بطور گواہ ہی عدالت میں پیش کیا جاتا تو ایک بہتر کیس ہوتا لیکن پولیس نے روایتی طور پر تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے لوگوں کو شامل۔ کیا ورنہ کیس اتنا پھیلتا ہی نہ۔
انہوں نے کہا کہ ’تفتیش کے دوران والدین کی ہونے والی گفتگو کا ڈیٹا کبھی حاصل نہیں کیا گیا نہ ہی واٹس ایپ کمپنی سے رابطہ کیا گیا۔ موبائل کمپنیوں سے ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا تھا لیکن تفتیشی نے کبھی ایسی کوشش ہی نہیں کی۔‘
اسد جمال نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ملزم کے والدین کا مقصد اگر جرم چھپانا ہوتا تو وہ پہلی فلائٹ کے ذریعے ہی کراچی سے اسلام آباد نہ پہنچتے اور پولیس کے سامنے پیش نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا پولیس میرے موکل پر عائد الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے میری موکلہ کو بری کیا جائے۔

شیئر: