صوبہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کے پیش نظر ایک جانب امن مارچ اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں اور حکومت کی جانب سے جرگے کے بعد جرگہ ہو رہا ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تو جرگے ہو رہے ہیں تو صوبائی حکومت نے بھی جرگوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے 20 جون کو قبائلی جرگہ منعقد کیا جس میں قبائلی عمائدین اور سابق عوامی نمائندے شریک ہوئے مگر اس میں حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں
-
’امن زندہ باد دہشت گردی نامنظور،‘ خیبر پختونخوا میں امن مظاہرےNode ID: 740156
جرگے کے وفد نے گورنر سے قیامِ امن اور ممکنہ آپریشن کو روکنے کا مطالبہ کیا جس پر فیصل کریم کُنڈی نے معاملہ وفاق کے ساتھ اُٹھانے کی یقین دہانی کی۔
گورنر ہاؤس میں امن و امان سے متعلق اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام جماعتوں نے شرکت کی۔
اے پی سی میں شریک جماعتوں نے قبائلی اضلاع میں امن کے قیام اور شرپسند عناصر کو بے دخل کرنے پر زور دیا۔
پشاور میں 15 جولائی کو باجوڑ کی صورتِ حال پر سیکریٹریٹ میں جرگہ منعقد ہوا جس میں پولیس، حکومت، سکیورٹی فورسز کے نمائندے اور مقامی عمائدین شریک ہوئے۔
جرگے میں مقامی عمائدین کے تحفظات سُن کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ روابط کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ضم اضلاع کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام نے قبائلی مِشران کا الگ جرگہ منعقد کیا جس میں مولانا فضل الرحمان نے دیگر علما کے ساتھ مل کر قبائلی عوام سے ملاقات کی۔ اس جرگے میں بھی عوامی نمائندگی اور رائے کے بغیر آپریشن کرنے پر بات کی گئی۔
دہشت گردی کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی نے بھی جرگے کا انعقاد کیا جس میں اعلامیہ جاری کر کے فوری امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا مگر اس جرگے میں بھی حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔
اپوزیشن جماعتوں کا موقف تھا کہ صوبے میں امن کے نام پر جرگے میں حکومت کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی جس سے حکومت کی غیرسنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔
صوبائی آل پارٹیز کانفرنس
اپوزیشن جماعتوں کے مسلسل جرگوں کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی جس میں صوبائی کابینہ کے ارکان بھی موجود تھے۔

اس اے پی سی میں ارکان اسمبلی کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی شرکت کی، تاہم پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی نے بائیکاٹ کیا۔
وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے اے پی سی سے خطاب میں کہا کہ دعوت کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت سے انکار کیا۔ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے۔
وزیراعلٰی نے آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ فیصلوں سے متعلق بتایا جس میں آپریشن کی کُھل کر مخالفت کی گئی جبکہ ڈرون کے ذریعے بھی ٹارگٹڈ آپریشن روکنے کا کہا گیا۔
اے پی سی میں شریک تمام جماعتوں نے شدت پسند عناصر کے محفوظ ٹھکانوں کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ’ہر قبائلی ضلعے کے وفد سے الگ الگ جرگے کیے جائیں گے جس کے بعد ایک قومی جرگہ بلایا جائے گا جس کا مقصد قبائلی عوام کو فیصلے کا اختیار دینا ہے۔‘
جرگہ کیا ہے؟
جرگہ یا پنچائیت ایک روایتی قبائلی نظام ہے جو خاص طور پر پشتون قبائل میں مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے منعقد کیا جاتا ہے۔
یہ ایک مقامی مشاورتی مجلس ہوتی ہے جس میں علاقے کے بزرگ اور معزز افراد مل بیٹھ کر مسائل پر گفتگو اور فیصلے کرتے ہیں۔ جرگے کا مقصد انصاف فراہم کرنا اور فریقوں کے مابین امن قائم کرنا ہوتا ہے۔

جرگے کے ثمرات نظر نہیں آئے
سینیئر صحافی طارق وحید کا کہنا ہے کہ ’کچھ عرصے سے جرگوں کا سیزن چل رہا ہے۔ صوبائی حکومت، اپوزیشن جماعتوں سے لے کر پولیس اور ضلعی انتظامیہ تک سب اپنے تئیں مختلف فورمز پر جرگے کر چُکے ہیں مگر اِن جرگوں کے ثمرات نظر نہیں آرہے۔‘
’جرگے کی کامیابی کے لیے تمام فریقوں سے بات چیت کرنا ضروری ہے مگر بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حالیہ جرگوں میں مقامی مِشران اور جن کے ساتھ تنازع ہے اُن کے ساتھ بات چیت نہیں کی جاتی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ضلع باجوڑ میں ٹارگٹڈ آپریشن سے پہلے مقامی افراد امن مارچ منعقد کرنے پر مجبور ہوئے تھے، تاہم گذشتہ آپریشن سے پہلے صوبائی حکومت تک کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اسی لیے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کرفیو کے نفاذ کی مخالفت کی گئی اور ضلعی انتظامیہ کو باقاعدہ تنبیہہ کی گئی۔‘
طارق وحید کا مزید کہنا تھا کہ ’جرگوں میں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت نظر آرہی ہے۔ اپوزیشن جماعت اگر جرگہ منعقد کرتی ہے تو اس میں حکومت کی نمائندگی نہیں ہوتی اور حکومت جرگہ کرتی ہے تو اپوزیشن جماعتیں بائیکاٹ کرتی ہیں جس کی وجہ سے جرگے کا انعقاد سُودمند ثابت نہیں ہو رہا۔‘
سینیئر صحافی ارشد عزیز ملک کی رائے ہے کہ سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر بیٹھنا ہوگا، جب تک سب فریق دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں کھڑے نہیں ہوں گے یہ مسئلہ سُلجھنے کے بجائے مزید اُلجھے گا۔‘












