Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس، مجھ پرمقدمہ رقم ہتھیانے کے لیے بنایا گیا: ملزم ظاہر جعفر

گزشتہ سماعت پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے ضابطہ فوجداری کے تحت 342 کا بیان عدالت میں جمع کرایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد میں سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم قتل کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں ملزمان کے وکلا کا حتمی دلائل کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے جس میں مرکزی ملزم کے والد ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ 
پیر کو دوران دلائل وکیل بشارت اللہ نے تفتیش پر سوالات اٹھاتے ہوئے دلائل دیے کہ ان کے موکل کے خلاف کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی ثبوت موجود نہیں، پولیس نے کال ریکارڈ ڈیٹا 27 جولائی کو حاصل کیا جبکہ ملزم کے والدین کو 24 جولائی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ کس بنیاد پر ایک شخص کو گرفتار کیا گیا جو کہ عبوری ضمانت پر تھے۔ 
وکیل نے کہا کہ 21 جولائی کو ذاکر جعفر پولیس کے سامنے پیش ہوئے، پستول کا لائسنس فراہم کیا، 22 جولائی کو بھی پولیس کو بیان دیا اگر ان کا مقصد کسی چیز کو چھپانا ہوتا تو وہ پولیس کے ساتھ کیوں تعاون کرتے؟ 
وکیل نے سی سی ٹی وی فوٹیج پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ملزم کی حد تک فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کروایا لیکن مقتولہ کا فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ نہیں کروایا، کیسے فرض کرلیا گیا کہ فوٹیج میں موجود لڑکی نور مقدم ہی تھی؟ 
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  ’ایک لمحے کے لیے اگر مان بھی لیں کہ سی سی ٹی وی فوٹیج ٹھیک ہے تو جس وقت نور مقدم نے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی اس وقت ان کے ہاتھ میں موبائل فون موجود تھا، اگر 18 جولائی کو وہ وہاں پر موجود تھیں اور 48 گھنٹے تک ان کے پاس موبائل تھا تو انہوں نے کسی کو میسج یا کال  نہیں کی، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں موجود تھیں انہیں زبردستی گھر میں قید نہیں کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے موکل کراچی میں موجود تھے جب لڑکی اپنی مرضی سے آئی تو ان کو کیا معلوم کہ پیچھے گھر پر کیا ہو رہا ہے؟ کال ریکارڈ کی حد تک بیٹے اور باپ کے درمیان کالز ثابت ہونے سے کوئی قیامت نہیں آجاتی۔‘ 
وکیل نے دلائل دیے کہ استغاثہ کے کال ریکارڈ ڈیٹا کے مطابق نور مقدم کا ایک سے زائد بار اپنی والدہ سے رابطہ ہوا لیکن انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ مجھے اغوا یا قید کیا ہوا ہے جبکہ مقتولہ کا کال ریکارڈ ڈیٹا صرف ایک صفحے پر مشتمل ہے اور ملزم کے والدین کا ڈیٹا 64 صفحات پر پیش کیا گیا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ جو کال ریکارڈ ڈیٹا فراہم کیا گیا اس کی تصدیق ہی کسی سے نہیں کرائی نہ ہی کسی کی مہر موجود ہے۔
ذاکر جعفر کے وکیل نے کہا کہ ’کال ریکارڈ ڈیٹا خود ساختہ ہے، مدعی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ قربانی کے بکرے کے لیے گلریز میں موجود تھے جبکہ ان کے دیے گئے ڈیٹا سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ گلریز گئے تھے۔‘ انہوں نے کہا کہ ابھی تک موبائل ڈیٹا حاصل نہیں کیا گیا ہے ملزم کے موبائل کے بارے کہا گیا کہ اس کی سکرین ٹوٹی ہوئی جبکہ مقتولہ کے موبائل کا پاسورڈ نہیں ملا، یہ کیسے ممکن ہے کہ سکرین ٹوٹ جائے یا پاسورڈ نہ ملے تو ڈیٹا ریکور نہیں کیا جاتا؟ لیبارٹریز اتنی جدید ہو گئی ہیں کہ ڈیلیٹ کیا ہوا ڈیٹا بھی ریکور کر لیا جائے۔‘

نور مقدم کا 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں قتل ہوا تھا 

ذاکر جعفر کے وکیل نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے موکل کو بری کیا جائے ان کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔‘
عدالت نے کیس کی سماعت 16 فروری تک ملتوی کر دی ہے، آئندہ سماعت پر مرکزی ملزم کے وکیل حتمی دلائل دیں گے۔
میرے خاندان سے پیسے ہتھیانے کے لیے مجھ پر کیس بنایا: مرکزی ملزم کا الزام 
اس سے قبل نور مقدم کے قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اپنے حق میں دفاع پیش کرتے ہوئے عدالت میں بیان جمع کروایا۔ 
بیان کے ساتھ مرکزی ملزم کے وکلا  کی جانب سے یو ایس بی اور میڈیکل رپورٹ کے ساتھ ساتھ نیوز کلپنگز بھی منسلک کی گئی ہیں۔ 
ملزم نے اپنے دفاع میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا ہے کہ یو ایس بی میں مرکزی ملزم اور مقتولہ کے تعلقات کا ثبوت موجود ہے جبکہ بیان میں یہ دعویٰ بھی کہا گیا ہے کہ مرکزی ملزم منشیات کے استعمال کے باعث بیرون ملک اور پاکستان میں زیر علاج رہا ہے جس کے ساتھ میڈیکل رپورٹ بھی منسلک کی گئی ہے۔ 

مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اپنے حق میں دفاع پیش کرتے ہوئے عدالت میں بیان جمع کروایا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اپنے دفاع میں دیے گئے بیان میں مرکزی ملزم نے ایک بار پھر مدعی پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مدعی شوکت مقدم یہ جانتے ہیں کہ میرا خاندان مالی طور پر مستحکم ہے اس لیے ہم سے پیسے ہتھیانے کے لیے پولیس کے ساتھ مل کر میرے اور خاندان کے خلاف کیس بنایا گیا۔‘
اپنے بیان میں ملزم نے کہا کہ پولیس کی آمد سے قبل جائے وقوعہ پر مدعی شوکت مقدم اور ان کے رشتہ دار موجود تھے لیکن پولیس نے ان کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ 
ملزم نے الزام عائد کیا کہ ’مقتولہ کا موبائل فون بھی تبدیل کیا گیا ہے اور اس کا مقصد مقتولہ کے موبائل فون سے پارٹی کے لیے دوستوِں کو کی گئی کالز کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانا تھا اگر پارٹی میں شرکت کرنے والے لوگوں کو سامنے لایا جاتا تو میرے خلاف کیس نہیں بنتا تھا۔‘ 
مرکزی ملزم نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور پیسے کے لیے میرے خلاف مہم چلائی۔ میرے خلاف ابھی مقدمہ زیر سماعت جبکہ ان مہم میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مجھے پھانسی پر لٹاکا دیا جائے۔‘ 
ملزم نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مقتولہ کا کال ریکارڈ ڈیٹا 20 جولائی 10 بج کر 46 منٹ کے بعد نہیں حاصل کی گئی جس کا مقصد پارٹی میں شرکت کرنے والے افراد کو منظر عام پر نہ لانا تھا۔
 

ٹرائل کورٹ کو مزید 4 ہفتوں کی مہلت

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کو مزید چار ہفتوں کی مہلت دے دی ہے۔
ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کے خط پر کیس کے حتمی فیصلے کی مدت میں مزید چار ہفتوں کی توسیع کر دی ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ کیس کے حتمی فیصلے کے لیے پہلے دو ماہ اور پھر 6 ہفتے کی مدت دے چکا ہے۔

شیئر: