Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تضادات سے بھرا ماضی، غیریقینی مستقبل‘، قرآن جلانے والے کا مقصد کیا تھا؟

سلوان مومیکا نے 28 جون سویڈن میں قرآن نذر آتش کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
سویڈن میں عیدالاضحٰی کے موقع پر ایک مسجد کے باہر عراقی مہاجر سلوان مومیکا کی جانب سے قرآن جلانے کے بعد جہاں معاملہ شہ سرخیوں میں آیا وہیں سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوا۔
عرب نیوز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور ٹوئٹر پر سامنے آنے والے ردعمل میں صرف مسلمانوں ہی نہیں غیرمسلموں نے بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اور بھی راستے تھے اور مذہبی علامتوں کا تقدس برقرار رکھا جانا چاہیے۔
واقعے کے بعد ہونے والی قیاس آرائیوں کے مطابق مومیکا کا اقدام جہاں سویڈن کے لیے سفارتی محاذ پر مشکلات کا باعث بنا وہیں ان کو سوشل میڈیا پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئی ہیں۔
بعدازاں معلوم ہوا کہ مومیکا  کی جانب سے حکام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان کے مہاجر کے سٹیٹس کو بڑھایا اور انہیں شہریت دی جائے۔
اب جبکہ یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ جان سے مارنے کی دھمکیاں حقیقت پر مبنی ہیں، عرب نیوز نے مومیکا کے ماضی، نظریات اور محرکات کے حوالے سے معلومات حاصل کی ہیں۔
28 جون کو مومیکا نے سٹاک ہوم میں مسجد کے سامنے اس وقت قرآن کے صفحات پھاڑے اور جلائے جب اس وقت وہاں پولیس بھی موجود تھی اور ان کے دوست نے ان مناظر کو فلمایا۔
اس موقع پر مومیکا نے چیختے ہوئے کہا کہ ’میں اس کتاب سے سویڈن کی حفاظت کا خواہاں ہوں جو کہ ملک کے لیے خطرہ ہے۔‘
تاہم کچھ ہی عرصہ پیشتر یہی خودساختہ ’لبرل‘ عراق کے ایک بدنام زمانہ انتہاپسند مذہبی گروپ ’امام علی بریگیڈ‘ جو عراق اسلامک موومنٹ کا مسلح ونگ ہے، سے وفاداری کا عہد کر رہا تھا۔
انہوں نے داعش کے خلاف جنگ کے حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم عزت کے ساتھ زندہ رہتے یا حوصلے کے ساتھ مرتے ہیں۔ میں کتائب روح اللہ عیسٰی ابن مریم کا ایک افسر ہوں جو کہ امام علی بریگیڈز کے ساتھ منسلک ہے۔‘

سلوان مومیکا کا کہنا ہے کہ وہ پانچ برس قبل سویڈن آئے (فوٹو: انسٹاگرام، سلوان مومیکا)

بنیادی طور پر ان کا تعلق شمالی عراق کے علاقے قراقوش سے ہے۔ وہ سیریئک ڈیموکریٹک یونین پارٹی اور ہاک سیریئک فورسز کے بانی بھی ہیں، جو 2014 میں بننے والی مسلح ملیشیا ہے جو مسیحی تنظیم ببائلون بریگیڈز سے وابستہ تھی۔
اور اب مومیکا کا دعوٰی ہے کہ مسلمان اپنے ملکوں سے شریعت کی حکمرانی کے باعث ہجرت کر رہے ہیں۔
’وہ اپنے ملکوں سے یہاں آ کر شرعی قانون کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہاں تحفظ، امن، عزت، جمہوریت کے لیے آتے ہیں اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ وہ اپنا شرعی قانون یہاں لاگو کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔‘
اسی طرح ایک اور موقع پر مومیکا نے اعلان کیا کہ وہ عراق کے شیعہ مذہبی و سیاسی رہنما مقتدا ال صدر پر مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو ان کے قتل پر اکسا رہے ہیں۔‘
دو دسمبر 2021 کو ان کے اکاؤنٹ سے ہونے والی ٹویٹ (جس کو اب ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے) بتاتی ہے کہ وہ عراقی صدرسٹ موومنٹ کے حامی اور مداح رہے ہیں۔
’حوصلہ مند کمانڈر مقتدا کی حمایت میں، مشرقی اور نہ ہی مغربی، قومی اکثریتی حکومت، وہ لڑیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔‘

کونسل آف کرسچیئن چرچ لیڈر کی جانب سے جاری کی گئی مذمتی خط کا عکس (فوٹو: عرب نیوز)

عرب نیوز نے عراق کے متعدد ماہرین سے رابطہ کیا جنہوں نے تصدیق کی کہ مومیکا ماضی میں گروپ سے وابستہ رہے ہیں۔
ان کے ماضی اور تضادات کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے عوامی سطح پر قرآن کو کیوں جلایا۔
مذہبی و سیاسی ایکسپرٹ ڈاکٹر ہانی ناصرہ کا کہنا ہے کہ ’مومیکا ایسے ماحول سے آئے جو مسیحیت سے بہت متاثر تھا اور مشترکہ دشمن داعش سے مقابلے کے لیے ملیشیا میں شامل ہوئے تھے۔
ان کے مطابق ’جب وہ مسیحیت پر قائم رہے انہوں نے اپنی اہمیت دکھانے کے لیے بہت کام کیا اور ایک موقع پرست کے طور پر سامنے آئے۔‘
عرب نیوز کی جانب سے مومکیا کے سوشل میڈیا پروفائلز سے کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی سویڈن میں مقیم عراقی مہاجرین کے حوالے موقف میں واضح تبدیلی آئی۔
ان کی فیس بک اور انسٹاگرام پوسٹس میں 2019 کے بڑے احتجاج کے بعد چھ ماہ قبل تک عراقی حکومت پر شدید تنقید دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے انتہائی اسلام مخالفت رویہ اور موقف اختیار کیا اور مسلسل توہین آمیز مواد شیئر کیا۔

ناصرہ کا کہنا تھا کہ ’جب حالات موافق ہو گئے تو انہوں نے عقیدہ چھوڑتے ہوئے الحاد اختیار کر لیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مومیکا کے ایک انتہا سے دوسری پر جانے اور یہاں تک کہ مذہب چھوڑ کر الحاد اختیار کرنے تک انہیں ناکامی کا سامنا رہا جس پر انہوں نے شہرت اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور اسلاموفوبیا کا استعمال کیا۔‘
یہ صورت حال مومیکا کی امیگریشن اور مہاجر کے سٹیٹس کے ساتھ بھی جڑی دکھائی دیتی ہے۔
سویڈن کے امیگریشن قوانین کے مطابق کوئی بھی شخص جو مہاجر کا سٹیٹس رکھتا ہے، اس کو تین سال تک رہنے کی اجازت کے ساتھ اس کو بڑھانے کے لیے اپیل کا بھی حق ہوتا ہے۔
تاہم سویڈن کی جانب سے امیگریشن کے قوانین سخت ہونے کے بعد مہاجرین کو لگ رہا ہے کہ ان کے پرمٹ ختم کیے جا رہے ہیں۔

سلوان مومیکا ماضی میں عراق میں انتہاپسند گروہوں کا حصہ رہے (فوٹو: روئٹرز)

مومیکا نے پچھلے ہفتے سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ پانچ سال قبل سویڈن آئے اور سویڈیش شہریت رکھتے ہیں تاہم عرب نیوز کو کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے اس دعوے کی تصدیق ہو۔
سویڈن سے تعلق رکھنے والے لکھاری جیری میہر سمجھتے ہیں کہ ’نئے امیگریشن قوانین کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ سب جان بوجھ کر کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔‘
’انہوں نے جان بوجھ کر اپنی شناخت ظاہر کی اور اپنے فون نمبر اور ایک میل ایڈریسز فیس بک پر دیے۔‘
ان کے مطابق ’یہ حربے ان کی حکمت عملی کا حصہ ہیں ان سے وہ سویڈن کے حکام کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کو حفاظت کی ضرورت ہے۔‘

شیئر: