Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافیوں کی انڈین میڈیا کو کنٹرول کرنے کے اسرائیلی ’حربوں‘ کی مذمت

ویشنا رائے نے کہا کہ وہ اسرائیلی سفیر کے خط کے ’لہجے اور انداز‘ سے بہت حیران ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
انڈین صحافیوں نے اسرائیلی سفیر کی جانب سے ایک معروف انڈین میگزین پر تنقید کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطین کے معاملے پر انڈین میڈیا کے بیانیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اسرائیل کے انڈین صحافیوں پر اثرانداز ہونے کی کوششوں پر تحفظات گذشتہ ماہ اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب انڈیا سے صحافیوں کے گروپوں نے اچانک اسرائیل جانا شروع کیا۔
عرب نیوز نے جن لوگوں سے بات کی انہوں نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا کہ آیا انہیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے سپانسر کیا گیا، لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں انڈین سکیورٹی فورسز نے سہولت فراہم کی تھی اور مفت ویزے دیے تھے۔
7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر بمباری کے بعد نئی دہلی میں اسرائیلی سفیر انڈین صحافیوں کو باقاعدگی سے بریفنگ دیتے رہے۔ اور رواں ہفتے انہوں نے ایک عوامی بیان دیا جس کو رپورٹنگ میں مداخلت کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔
31 اکتوبر کو ایک خط میں اسرائیلی سفیر نور گیلن نے دی ہندو گروپ کی طرف سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ انگریزی میگزین ’فرنٹ لائن‘ پر ’مین سٹریم میڈیا میں جعلی خبریں درآمد کرنے‘ کا الزام لگایا۔ اسی دن انہوں نے یہ خط سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔
اسرائیلی سفیر کا خط اس وقت سامنے آیا جب میگزین نے غزہ کی صورت حال پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں اسرائیلی ذرائع اور حماس کے ترجمان دونوں کے بیانات شامل تھے۔
نور گیلن نے خط میں لکھا کہ حماس کا انٹرویو کرنا ’شرمناک‘ تھا اور اس نے ’صحافتی معیار اور اخلاقی تحفظات کے بارے میں شدید شکوک و شبہات پیدا کیے‘، اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ دی ہندو ’اس کا نوٹس لے گا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گا کہ مستقبل میں انٹرویو اسی دیانت داری کے ساتھ کیے جائیں جس کے اس کے قارئین مستحق ہیں۔‘
اس خط کی تصدیق فرنٹ لائن میگزین کی ایڈیٹر ویشنا رائے نے کی جن کے ای میل ایڈریس پر یہ بھیجا گیا تھا۔
ویشنا رائے نے کہا کہ وہ خط کے ’لہجے اور انداز‘ سے بہت حیران ہیں۔
’ایک خاص غصہ ہے، جس کی توقع کسی سفارتی عہدے سے، ایک اہم عہدے سے، یا کسی ملک کے سفیر سے نہیں کی جا سکتی۔ اس میں تحمل کا فقدان ہے اور یہ ذاتی حملہ ہے، جس نے مجھے حیران کر دیا۔‘
’ہم نے دو اسرائیلیوں، فلسطین لیبر آرگنائزیشن (پی ایل او) کے ایک سابق ترجمان اور حماس کے بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ کا انٹرویو کیا۔ ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے میں نے سوچا کہ دونوں فریقین کو سننا ضروری ہے۔‘

سنجے کپور کے مطابق ’مغربی طاقتیں اور اسرائیل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں کا نقطہ نظر کبھی سامنے نہ آئے‘ (فائل فوٹو: گورنمنٹ پریس آفس)

اگرچہ یہ خط ویشنا رائے کو بھیجا گیا، لیکن یہ روزنامہ دی ہندو کے ایڈیٹر سریش نمباتھ کو لکھا گیا تھا، دی ہندو اسی میڈیا گروپ کی ملکیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عام طور پر کوئی ایڈیٹر کو خط لکھتا ہے تو ہم اسے اپنے جواب کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔ سفیر نے اسے میری ای میل آئی ڈی پر بھیجا، لیکن مجھے ایڈریس نہیں کیا۔ میں نے پوچھا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس کے بجائے سفیر نے وہی خط آن لائن شائع کر دیا۔‘
سفیر کی سوشل میڈیا پوسٹ پر متعدد تبصروں میں فرنٹ لائن میگزین کی ایڈیٹر کو ہراساں کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔
ویشنا رائے کا کہنا تھا کہ ’یہ غیرمعمولی ہے اور اچھا شگون نہیں ہے۔ ہم ایک خاص قسم کے پروپیگنڈے میں اچانک اضافہ دیکھ رہے ہیں، جو اختلاف رائے کی آواز کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔‘
’وہ بیانیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا پر جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ اس سے فوری طور پر میرے خلاف ٹرولنگ شروع ہو جائے گی۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔‘
انگریزی زبان کے سیاسی میگزین ’ہارڈ نیوز‘ کے ایڈیٹر سنجے کپور نے کہا کہ انہوں نے بھی کچھ ایسا ہی رجحان دیکھا۔ ’ہمارا میڈیا مغربی میڈیا کی پیروی کرتا ہے۔ کئی بار وہ ایسی رپورٹیں بھی کرتے ہیں جو ہماری خارجہ پالیسی کے خلاف ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ سمجھیں گے کہ یہ آزاد صحافت کی علامت ہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔‘
’مغربی طاقتیں اور اسرائیل بیانیے کو کنٹرول کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں کا نقطہ نظر کبھی سامنے نہ آئے۔‘
پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر اوماکانت لاکھیرا نے کہا کہ ’’یہ انڈین میڈیا کے لیے غیر ضروری اور ناقابل قبول ہے۔‘

اوماکانت لاکھیرا نے کہا کہ ’اسرائیلی سفیر ایک ایسی ریاست کے نمائندے ہیں جس کی سکیورٹی فورسز نے کم سے کم 31 فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’انڈیا میں اسرائیلی سفیر کو انڈین میڈیا کو شرائط و ضوابط بتانے اور صحافت کی اخلاقیات کے پروٹوکول کی تبلیغ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
انہوں نے سفیر کے تبصروں کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دیا جو ایک ایسی ریاست کے نمائندے ہیں جس کی سکیورٹی فورسز نے گذشتہ تین ہفتوں میں کم سے کم 31 فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا ہے۔
اوماکانت لاکھیرا نے کہا کہ ’وہ کیوں مارے گئے؟ کیونکہ وہ زمینی حقیقت پیش کر رہے ہیں، وہ زمینی صورت حال کی اطلاع دے رہے ہیں۔‘
یہ صرف فرنٹ لائن کے ایڈیٹر کے خلاف اسرائیلی سفیر کا خط نہیں جس نے صحافیوں کو خبردار کیا۔
کالم نگار اور دکن ہیرلڈ اخبار کے سابق ایڈیٹر آنند ساہے نے کہا کہ ’یہ صرف اسی سفیر کا معاملہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے سیکریٹری جنرل پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے خود ایک دہشت گرد ریاست کی طرح برتاؤ کیا ہے۔‘
آنند ساہے کو امید ہے کہ چونکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ’اپنے ہی ملک میں روز بروز مقبولیت کھو رہے ہیں‘، تو انڈین وزیراعظم نریندر مودی خود کو ان سے اور ان کی ’عسکری‘ حکومت سے دور کر لیں گے۔
’اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو مستقبل میں نئی ​​دہلی میں اسرائیل کا کوئی بھی سفیر میڈیا کو اس قابل اعتراض طریقے سے لیکچر نہیں دے سکے گا۔‘

شیئر: