Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی حیران کن کامیابی: کیا مودی کو روکنا ناممکن ہے؟

ریاستی انتخابات میں کامیابی نے نے بی جے پی کی تنظیمی طاقت اور مودی کی صدارتی طرز کی انتخابی مہم کی اپیل کو بھی ظاہر کیا۔ (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں کو اگلے برس ہونے والے عام انتخابات میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (پی جے پی) کے خلاف ایک ’بہت بڑے ٹاسک‘ کا سامنا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق  بی جے پی حالیہ دنوں میں اہم ریاستوں کے انتخابات میں حیران کن طور پر فاتح بن کر ابھری ہے۔
تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ کانگریس کی اتوار کو تین اہم ریاستوں میں شکست کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ 28 اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد، حکمراں جماعت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتا ہے۔ اس اتحاد کی سربراہی کانگریس کے پاس ہے جو برطانیہ سے آزادی کے بعد سے 54 برسوں تک اقتدار میں رہی ہے۔
ریاستی انتخابات میں کامیابی نے بی جے پی کی تنظیمی طاقت اور مودی کی صدارتی طرز کی انتخابی مہم کی اپیل کو بھی ظاہر کیا۔ انڈیا کے عام انتخابات میں صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں اور نریندر مودی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے کوشاں ہیں۔
سی ووٹر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ووٹنگ کی حرکیات کے ماہر یشونت دیش مکھ کے مطابق ’ان نتائج کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ مودی کو روکنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔‘
بی جے پی نے چار ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں سے تین میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں راجستھان اور چھتیس گڑھ بھی شامل ہیں جہاں پہلے کانگریس کی حکومتیں تھیں۔

سروے ظاہر کرتے ہیں کہ نریندر مودی 2024 کا الیکشن جیتنے کے لیے پسندیدہ امیدوار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نریندر مودی 2014 میں استحکام اور ترقی کے نعروں کے ساتھ برسراقتدار آئے تھے جبکہ کانگریس کی حکومت کو انہوں نے کرپشن اور بری گورننس کا دور کہا تھا۔
انہوں نے معیشت کو فروغ دے کر، مزید فلاح و بہبود کی پیشکش کر کے اور ہندو قوم پرستی کے ایک جارحانہ برانڈ کو آگے بڑھا کر 2019 میں دوسری بار جیت کر اپنے اقتدار کو مستحکم کیا تھا۔
مودی مقبول ہیں اور سروے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ 2024 کا الیکشن جیتنے کے لیے پسندیدہ امیدوار ہیں۔
دوسری جانب کانگریس کے رہنما راہُل گاندھی نے اپنی جماعت کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں کافی محنت کی ہے۔
انہوں نے پورے ملک میں 135 دنوں پر مشتمل مارچ کیا، پارٹی قیادت تبدیل کی اور 28 جماعتوں پر مشتمل اتحاد، جسے انڈیا کہا جاتا ہے،  بنایا۔
رواں برس کانگریس کی اہم جنوبی ریاست کرناٹک میں کامیابی کو اس کی واپسی کہا جا رہا تھا، لیکن پھر اتوار کے نتائج سامنے آئے اور اس نے ایک بار پھر اس امر کو ظاہر کیا کہ پارٹی کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔

راہُل گاندھی نے کانگریس کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں کافی محنت کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کانگریس کے سینیئر رہنما اور لوک سبھا کے ممبر منیش تیواڑی نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ڈرائنگ بورڈ پر واپس جانے اور سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ واقعی کیا غلط ہوا، ہم لوگوں کا اعتماد کیوں حاصل نہیں کر سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ کو ایک ایسے پروگرام کی ضرورت ہے جو لوگوں کو جوش دلائے، جسے متبادل کے طور پر دیکھا جائے۔‘
اپوزیشن کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک انڈیا اتحاد کے اندر دھڑے بندیاں ہیں۔
کانگریس نے اہم علاقائی اتحادی سماج وادی پارٹی کے ساتھ ریاستی انتخابات میں سیٹیں بانٹنے سے انکار کر دیا تھا۔
سماج وادی پارٹی کے ترجمان منوج کاکا کا کہنا تھا کہ ’کانگریس اتحاد کے لیے مکمل طور پر پرعزم نظر نہیں آئی۔‘

شیئر: