Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی بمقابلہ پی ڈی ایم، کس کے دور حکومت میں کتنی بچت ہوئی؟

وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بیرون ملک سرکاری دوروں کے اخراجات خود برداشت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں کفایت شعاری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی عمر ہے۔ کفایت شعاری کا یہ سفر ہر حکومت کے دور میں ہی جاری رہا لیکن حیران کن طور پر جہاں بچت کے دعوے کیے جاتے رہے وہیں حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ملک کے تقریباً تمام سرکاری ادارے خسارے میں چلنے لگے۔
پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، سٹیل ملز اور دیگر کئی ادارے کے دہائیوں سے خسارے میں چلنے کے بعد اب ان میں کچھ کی نجکاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد وفاقی کی سطح پر مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی حکومت نے بھی ایک بار پھر کفایت شعاری کے تحت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے شہباز شریف نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
سات رکنی کمیٹی کے اکثر ارکان اُسی سابقہ کفایت شعاری کمیٹی میں بھی شامل تھے جس کی تجاویز کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
موجودہ حکومت نے سب سے پہلے صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ماضی کے کچھ فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی وزرا اور سرکاری افسران کے بیرون ملک دوروں سے متعلق سفری پالیسی جاری کر دی گئی ہے۔ اس کے تحت سرکاری افسران کو صرف ناگزیر وجوہات کی بنا پر سفر کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
نئی سفری ہدایات کے مطابق وفاقی وزرا، وزیر مملکت، مشیر اور معاونین کے سرکاری دورے وزیراعظم کی منظوری سے مشروط ہوں گے۔
سفری پالیسی کی دستاویزات کے مطابق سرکاری افسران کے فائیو سٹار ہوٹل میں قیام پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ افسران کے معاون سٹاف کو ساتھ سفر میں جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
نئی سفری پالیسی میں ہدایت جاری کی گئی ہے کہ غیرملکی وفود کے ساتھ آن لائن میٹنگز کو ترجیح دی جائے اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے۔

سپیکر ایاز صادق نے چھ سکیورٹی کی گاڑیاں واپس کر دی ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)

وفاقی کابینہ کے ساتھ ساتھ سپیکر قومی اسمبلی نے حکومت پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کفایت شعاری اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے سپیکر ہاؤس سے 40 سے زائد ملازمین قومی اسمبلی کو واپس کردیے ہیں۔
سپیکر ایاز صادق نے چھ سکیورٹی کی گاڑیاں بھی واپس کرتے ہوئے رواں برس کے سپیکر ہاؤس اور دفتر کے تمام اخراجات کی تفصیل طلب کر لی ہے۔
اس سے قبل سنہ 2022 میں بھی شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اخراجات میں کٹوتی کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے سالانہ ایک ہزار ارب روپے کی بچت کے لیے کفایت شعاری کے جامع اقدامات تجویز کیے تھے، لیکن اس کمیٹی کی بیشتر تجاویز کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
تاہم حکومت نے سرکاری افسران اور کابینہ کے ارکان کو ملنے والے پیٹرول کے کوٹے میں 40 فیصد کمی کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران اور وزرا کے ’غیر ضروری‘ غیرملکی دوروں پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر گاڑیاں خریدنے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔ ان میں سکول بسیں، ایمبولینس یا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں شامل نہیں تھیں۔
اس کے باوجود پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کی جانب سے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کے باوجود کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے پروٹوکول ڈیوٹی کے لیے سات کروڑ 28 لاکھ 86 ہزار 600 روپے مالیت کی آٹھ لگژری گاڑیاں درآمد اور خریدنے کا انکشاف ہوا۔ کابینہ ڈویژن نے گاڑیاں اپریل 2022 سے فروری 2023 کے درمیان میں خریدی تھیں۔
کئی ایک وفاقی وزرا کو قانونی طور پر 1800 سی سی کی کار کے بجائے لینڈ کروزر اور بلٹ پروف گاڑیاں بھی استعمال کے لیے دی گئیں۔

عبدالقادر پٹیل کے بطور وفاقی وزیر صحت غیرملکی دوروں پر ایک کروڑ سے زائد روپے خرچ ہوئے۔ (فوٹو: ایکس)

اس کے علاوہ کفایت شعاری کے اعلانات کے باوجود ایک برس کے دوران 25 وفاقی وزرا نے چھ کروڑ 52 لاکھ روپے غیرملکی دوروں پر خرچ کیے۔ ان میں سب سے زیادہ ایک کروڑ سے زائد روپے عبدالقادر پٹیل نے بطور وفاقی وزیر صحت خرچ کیے۔
وفاقی وزیر سرمایہ کاری چوہدری سالک حسین پر 37 لاکھ ،وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان پر 49 لاکھ، وزیر مواصلات اسعد محمود پر 18 لاکھ، نوید قمر پر 59 لاکھ، وزیر دفاعی پیداوار محمد اسرار ترین پر 26 لاکھ، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف پر 31 لاکھ، خرم دستگیر پر 26 لاکھ، وزیر مملکت مصدق ملک پر 35 لاکھ، اسحاق ڈار پر 24 لاکھ روپے اور دیگر پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے۔ ان میں پی ٹی آئی دور حکومت کے دو وزرا زبیدہ جلال اور عمر ایوب بھی شامل ہیں۔ دونوں پر بالترتیب نو لاکھ اور 15 لاکھ خرچ ہوئے۔
کفایت شعاری کے اقدامات کے تحت ہی کابینہ کی جانب سے سرکاری دفاتر و متعلقہ محکموں اور خود مختار اداروں میں دوپہر و رات کے کھانے اور ہائی ٹی پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
وزیراعظم کی جانب سے اپنی سکیورٹی پر مامور گاڑیوں میں 50 فیصد کمی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بیرون ملک سرکاری دوروں کے اخراجات بھی خود برداشت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مارشل لا ادوار کے بعد پاکستان میں دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں رہی ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے اداروں میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ پڑا اور کفایت شعاری کے تمام تر دعوؤں اور وعدوں کے باوجود ملک کی معاشی صورت حال ابتر ہوئی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی گذشتہ حکومت میں اپنی سکیورٹی پر مامور گاڑیوں میں 50 فیصد کمی کا بھی فیصلہ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی کفایت شعاری اور بچت مہم کا اعلان کرتے ہوئے کئی بڑے اعلانات کیے۔ تاہم ان کی حکومت کے خاتمے بعد معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی نے ملکی تاریخ میں قرضے لینے کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے اور ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچا ہوا تھا۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کے بجائے وزیراعظم ہاؤس میں ہی موجود ملٹری اتاشی کے لیے مخصوص رہائش گاہ میں قیام کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم ہاؤس میں رکھی گئی بھینسوں اور گاڑیوں کی نیلامی بھی کی گئی۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور این ایچ اے سمیت کئی دیگر وزارتوں اور محکموں کی گاڑیاں نیلام کی گئیں۔ پہلے مالی سال کے اختتام پر کئی ایک وزارتوں کی جانب سے بجٹ سرنڈر کرنے اور بچت کے دعوے کیے گئے۔
ابتدا میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم تین ماہ تک کوئی غیرملکی دورہ نہیں کریں گے۔ اور وزیراعظم اور وزیر خارجہ کمرشل پروازوں سے بیرون ملک جایا کریں گے لیکن بعد ازاں اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
عمران خان کی حکومت نے ایک طرف تو کفایت شعاری کے نام پر مختلف اداروں کے بجٹ میں کٹوتی کی لیکن اپنے دوسرے بجٹ میں ہی خود ہی دستاویزات کے ذریعے بتایا کہ حکومت نے مالی سال 20-2019 میں 544 ارب روپے کی ضمنی گرانٹس حاصل کیں۔
2019-20 کے لیے تکنیکی سپلیمنٹری گرانٹ کی مد میں 208.8 ارب روپے لیے گئے جبکہ ریگولر ضمنی گرانٹ کی مد میں 335.99 ارب روپے حاصل کیے گئے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے 1240 دنوں میں سے صرف 47 دن بیرون ملک گزارے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس کے علاوہ بیرونی گرانٹس کی مد میں 1232 ارب روپے حاصل کیے گئے۔ کابینہ ڈویژن کے دیگر اخراجات کےلیے ایک ارب 20 کروڑ روپے، فیڈرل سروس کمیشن کے لیے 16 کروڑ، نیشنل سکیورٹی ڈویژن کےلیے ڈیڑھ کروڑ، انسداد غربت کے لیے 85.7 ارب روپے، وزیراعظم آفس کے لیے 26 ارب روپے، افواج پاکستان کے لیے 33 ارب، پاور ڈویژن کے لیے 21.7 ارب، پیٹرولیم ڈویژن کے لیے ایک ارب 80 کروڑ اور پیٹرولیم ڈویژن کے دیگر اخراجات کے لیے 32.4 ارب کی ضمنی گرانٹ حاصل کی گئی۔
عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان بھی کیا لیکن اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔ سابق وزرائے اعظم کی نسبت وزیراعظم عمران خان کے دورے نہ صرف دورانیے بلکہ وفود کے اعتبار سے بھی مختصر تھے بلکہ ان کے دوروں پر اخراجات بھی کم آئے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے 1240 دنوں میں سے صرف 47 دن بیرون ملک گزارے ہیں۔ اوسطاً 22 افراد وزیراعظم کے غیرملکی دوروں میں ان کے وفود کا حصہ رہے۔ عمران خان نے ساڑھے تین برس میں 31 غیرملکی دورے کیے جن پر 20 کروڑ 37 لاکھ 67 ہزار روپے خرچ ہوئے۔
عمران خان کے دور حکومت میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کے 31 کروڑ روپے بچائے جبکہ کابینہ ڈویژن کے مطابق یہ رقم دراصل 9 کروڑ روپے تھی۔
’وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات 59 کروڑ نہیں بلکہ 50 کروڑ 9 لاکھ روپے تھے جنہیں کم کر کے 28 کروڑ نہیں بلکہ 30 کروڑ روپے تک لایا گیا۔

عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان بھی کیا لیکن اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں سب سے بڑی کٹوتی جو کُل اخراجات کا 55 فیصد بنتی تھی وہ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں کی گئی۔ 18-2017 کے بجٹ میں یہ رقم 34 کروڑ سے زائد تھی جبکہ 21-2020 میں یہ رقم 22 کروڑ تک لائی گئی۔
کابینہ ڈویژن کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم ہاؤس سے غیر ضروری عملے کی کمی ایک مسلسل عمل ہے۔ سنہ 2013 میں وزیراعظم ہاؤس کی 494 آسامیوں میں سے 258 کم کر دی گئی تھیں۔ سنہ 2018 سے 2021 کے دوران وزیراعظم ہاؤس کی آسامیاں کم کی گئیں۔
یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ جو لوگ وزیراعظم ہاؤس سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیجے گئے وہ سرپلس پول میں رکھے گئے جنہیں بعد ازاں دیگر وزارتوں میں تعینات کیا گیا۔
کابینہ ڈویژن کے مطابق وزیراعظم ہاؤس سے آسامیاں کم کرنے کے باوجود وہ سرکاری ملازم رہے اور انہیں وفاقی بجٹ سے ہی تنخواہیں اور مراعات ملتی رہی ہیں۔

شیئر: