Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر اور وزرا کے تنخواہ نہ لینے کے اعلانات، ’محض رسمی کارروائی‘

حکومت کی جانب سے صدر مملکت کی ماہانہ تنخواہ 8 لاکھ 96 ہزار 550 روپے مقرر ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں وفاقی کابینہ کے کئی ارکان نے ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر تنخواہیں نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
حکومتی نمائندوں کا اپنی تنخواہیں نہ لینے کا اعلان کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے اعلانات سننے کو ملتے رہے۔ 
جن حکومتی شخصیات نے ملک کے مجموعی معاشی حالات کے سبب سرکاری خزانے سے تنخواہیں نہ لینے کا اعلان کیا ان میں صدر آصف علی زرداری، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر نجکاری عبد العلیم خان اور دیگر شامل ہیں۔
ایوان صدر کے اعلامیے کے مطابق ’صدر نے یہ فیصلہ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کے باعث کیا اور صدر نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ وہ قومی خزانے پر بوجھ نہیں بنیں گے اور اپنی تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔‘
صدر مملکت آصف زرداری کے بعد متعدد وفاقی وزراء نے بھی سرکاری خزانے سے تنخواہیں نہ لینے کا اعلان کیا۔ محسن نقوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزیر داخلہ اور وزیر انسداد منشیات کی حیثیت سے قوم کی خدمت کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ’اس مدت کے دوران اپنی تنخواہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
 اسی طرح وزیر نجکاری اور سرمایہ کاری بورڈ عبد العلیم خان نے بھی سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور دیگر مراعات نہ لینے کا اعلان کیا۔
انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ وزارت سے ماہانہ تنخواہ، سرکاری گاڑی و دیگر مراعات نہیں لیں گے۔ اجلاسوں اور مہمانوں کی خاطر داری کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔

حکومتی شخصیات کے تنخواہ نہ لینے سے ملکی خزانے کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟

صدر مملکت اور وفاقی وزرا نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان تو کر دیا ہے مگر ان اقدامات سے ملکی خزانے پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
اردو نیوز کو موصول تفصیلات کے مطابق صدر مملکت اور وزراء کی جانب سے تنخواہ نہ لینے پر پانچ سال میں مجموعی طور پر قومی خزانے کو 9 کروڑ 43 لاکھ روپے سے زائد کی بچت ہو سکتی ہے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فائل فوٹو)

حکومت کی جانب سے صدر مملکت کی ماہانہ تنخواہ آٹھ لاکھ 96 ہزار 550 روپے مقرر ہے۔ ان کے تنخواہ نہ لینے سے قومی خزانے کو سالانہ ایک کروڑ سات لاکھ 58 ہزار روپے کی بچت ہو گی۔
دوسری جانب ایک وفاقی وزیر کی ماہانہ تنخواہ تین لاکھ 38 ہزار روپے ہے۔ نئی منتخب ہونے والی حکومت کے ابھی تک 2 وفاقی وزرا نے ماہانہ تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ 
مذکورہ وزرا کی جانب سے تنخواہیں نہ لینے سے قومی خزانے کو ماہانہ چھ لاکھ 76 ہزار روپے اور سالانہ 81 لاکھ 12 ہزار روپے کی بچت ہو گی۔
اگر یہ وزرا پانچ سال تک وفاقی وزیر رہیں اور تنخواہیں وصول نہ کریں تو اس طرح قومی خزانے کو 4 کروڑ 5 لاکھ 60 ہزار روپے کی بچت ہو گی۔

ماضی میں کون سی حکومتی شخصیات نے تنخواہ لیے بغیر کام کیا؟

پاکستان میں مخلتف حکومتی شخصیات منصب سنبھالنے کے بعد تنخواہیں یا مراعات نہ لینے کا اعلان کرتی رہی ہیں۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بطور گورنر جنرل پاکستان حکومتی خزانے سے تنخواہ کی مد میں صرف ایک روپیہ لیا کرتے تھے۔
 سرکاری فائل نیشنل آرکائیوز آف پاکستان کے مطابق محمد علی جناح کی مجموعی تنخواہ 10،416 روپے 10 آنے اور 8 پائی تھی جس میں سے 6112 روپے سپر انکم ٹیکس کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع ہو جاتے تھے اور قائد اعظم کے حصے میں 4304 روپے 10 آنے آتے تھے۔
سال 2013 سے 2017 تک سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی تنخواہ عطیہ کرتے رہے۔ انہوں نے بطور وزیراعظم اپنی تنخواہ سوات کے کڈنی ہسپتال کو عطیہ کی۔
اس کے علاہ وزیراعظم ہاؤس میں نواز شریف کے کھانے کے اخراجات یا وہاں منعقدہ شریف خاندان کی کسی تقریب پر ہونے والے اخراجات نواز شریف خود یا اُن کا خاندان اٹھایا کرتا تھا۔

عمران خان نے کہا تھا کہ تنخواہ سے ان کے گھر کے خرچے بھی پورے نہیں ہوتے۔ (فوٹو: حکومت پاکستان)

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا دور اقتدار

2017 میں نواز شریف کے وزیر اعظم ہاؤس سے جانے کے بعد شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ شاہد خاقان عباسی بطور وزیر اعظم اپنی مختصر مدت کے دوران سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے سے انکاری رہے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم ہاؤس کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا۔ وہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون سے روزانہ وزیر اعظم آفس آیا کرتے تھے۔

عمران خان کا بطور وزیر اعظم کم تنخواہ ملنے کا شکوہ 

سال 2018 میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان کے چار سال کے دور حکومت میں وزیر اعظم ہاؤس کا مجموعی خرچہ تو کسی حد تک کم ہوا۔ تاہم عمران خان خود سرکاری خزانے سے تنخواہ حاصل کرتے رہے۔
عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ انہیں جو تنخواہ ملتی ہے اس سے ان کے گھر کے خرچے بھی پورے نہیں ہوتے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان وزیر اعظم ہاؤس کی بجائے اپنی رہائشگاہ بنی گالا میں رہائش پذیر رہے۔ تاہم اُن کی رہائش گاہ بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس تک جانے کے سفری اخراجات بھی خبروں کی زینت بنتے رہے۔
پی ڈیم ایم حکومت کے بننے کے کچھ ماہ بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور اُن کی کابینہ کی جانب سے بھی تنخواہیں نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

’تنخواہیں نہ لینے کے اعلانات محض رسمی کارروائی‘

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ حکومتی شخصیات کی جانب سے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کے اعلانات رسمی کارروائی ہوتی ہے۔
سینیئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ وزیراعظم یا اُن کی کابینہ کے کسی وزیر کا تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ ایک اچھا تاثر چھوڑ سکتا ہے تاہم اس کا قومی سطح پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑتا۔
مظہر عباس کے مطابق ’مجھے ایسے فیصلوں کے پیچھے منطق کی سمجھ نہیں آتی۔ اگر کوئی حکومتی شخصیت تنخواہ نہیں لے گی تو اپنے اخراجات کیسے چلائے گی ہاں اگر وہ کوئی صاحب ثروت شخصیت ہو۔‘
مظہر عباس نے مزید بتایا کہ حکومتی شخصیات کو تنخواہ سے کئی زیادہ مراعات ملتی ہیں۔ اُن کو سفری اخراجات، رہائش اور دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ ’انفرادی سطح پر ایسے فیصلوں کے بجائے حکومت کو پالیسی فیصلے کرنے چاہییں۔‘

شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم ہاؤس کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا تھا۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)

مظہر عباس نے ماضی کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت کی مثال دی کہ انہوں نے اپنی کابینہ کے لیے ایک پالیسی تشکیل دی تھی جس کے تحت وزراء کو چھوٹی گاڑیوں پر لایا گیا تھا اور اُن کے اخراجات کم سے کم کیے گئے تھے۔ آج بھی ایسی پالیسز اور بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ 
سینیئر تجزیہ نگار نذیر لغاری نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ صدر، وزیراعظم یا وزراء کے تنخواہیں نہ لینے کے اعلانات محض رسمی کارروائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت میں رہنے والی شخصیات کو ماہانہ لاکھوں روپے کی مراعات ملتی ہیں۔ وی آئی پی پروٹوکول، ذاتی ملازم اور رہائش گاہیں بھی میسر ہوتی ہیں۔ ایسے میں تنخواہیں نہ لینے کے اعلانات عوامی توجہ حاصل کرنے کا حربہ ہوتے ہیں۔
مظہر عباس کے مطابق حکومتی شخصیات کے ایسے فیصلے اُن کی سادگی کو ظاہر نہیں کرتے۔ اگر وہ واقعی ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں تو انہیں بڑی گاڑیوں، بنگلوں اور پروٹوکول سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہوں گی۔
مظہر عباس نے کہا کہ ’یہاں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری افسران (بشمول ججز اور فوج) کو لاکھوں روپے ماہانہ کی مراعات ملتی ہیں۔ حکومتی شخصیات کے تنخواہیں نہ لینے کے اعلانات اچھا تاثر قائم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔‘
نذیر لغاری کے مطابق ماضی کے وزرائے اعظم میں ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں جو کم سے کم سرکاری مراعات لیا کرتے تھے۔ اُن کی شخصیت پر مخالفین نے کئی الزام لگائے مگر اُن کے دامن پر مالی بدیانتی کا داغ نہ لگا سکے۔
نذیر لغاری نے کہا کہ حکومتی شخصیات کی سادگی کی مثالیں ترقی یافتہ اقوام میں ملتی ہیں جو دنیا پر راج بھی کر رہے ہیں مگر بڑے محلات اور پروٹوکول میں رہنے کے بجائے سادہ زندگی گزار رہے ہیں۔
نذیر لغاری کے مطابق ’ہمارے حکمران ہالینڈ کے وزیراعظم کے سائیکل پر جانے کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر اپنی شاہانہ طرز زندگی تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔‘

شیئر: