Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب، کیا کچھ ہونے جارہا ہے؟

’گزشتہ پچاس برسوں میں امریکی صدور نے 12 مرتبہ سعودی عرب کے دورے کئے‘ ( فوٹو: سبق)
سعودی عرب کا جوہری پروگرام، عسکری معاہدے، دفاعی معاہدہ، غزہ کی جنگ کا خاتمہ، دو ریاستی حل کی راہ، ایران سے مذاکرات اور ایک کھرب ڈالر کے تجارتی و سرمایہ کاری منصوبے،یہ سب کچھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کا حصہ ہوں گے۔
ان کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی قیادت پر مشتمل ایک ٹیم کی آمد بھی متوقع ہے جن میں ایلون مسک، بطور وزیر اور ٹیسلا و اسپیس ایکس کے سربراہ، شامل ہوں گے۔
علاوہ ازیں اوپن اے آئی، میٹا، الفابیٹ، بوئنگ اور سٹی گروپ کے سربراہان بھی موجود ہوں گے۔
 یہ دورہ غیر معمولی اس لیے بھی ہے کہ صدر ٹرمپ کی صدارت میں یہ اُن کا پہلا سرکاری غیر ملکی دورہ ہےجو ان کی بین الاقوامی سفارتی سرگرمیوں کی شروعات ہے۔
اس دورے کی تیاری پچھلے دو ماہ سے جاری ہے اور امریکی و سعودی حکومتوں کی جانب سے اس سطح کی پیشگی تیاری پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
 اس تیاری کے دوران متعدد مذاکرات ہوئے جن میں تمام سیاسی، اقتصادی اور دفاعی معاملات پر پیش رفت کی گئی۔

’صدر ٹرمپ کا دورہ بڑے عالمی و علاقائی تغیر کے دور میں ہو رہا ہے‘ ( فوٹو: سبق)

اس سے قبل علاقائی و عالمی رہنماؤں کے کئی دورے بھی ریاض ہو چکے ہیں تاکہ زیر بحث آنے والے موضوعات میں مزید نکات شامل کیے جا سکیں۔
گزشتہ پچاس برسوں میں امریکی صدور نے 12 مرتبہ سعودی عرب کے دورے کئے جیسا کہ امریکی وزارتِ خارجہ کے ریکارڈ میں درج ہے اور ہر دورہ اپنے وقت کے سیاسی و تاریخی پس منظر میں اہم رہا ہے۔
 موجودہ تناظر میں صدر ٹرمپ کا یہ دورہ بڑے عالمی و علاقائی تغیر کے دور میں ہو رہا ہے جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ وسیع تبدیلی ہے۔
جہاں تک دو طرفہ تعلقات کا تعلق ہے تو ٹرمپ کا یہ دورہ نئے باب کا آغاز معلوم ہوتا ہے کیونکہ زیرِ بحث موضوعات کی نوعیت اور مجوزہ معاہدات غیر معمولی ہیں۔


’شاہ عبدالعزیز اور صدر روزویلٹ کے درمیان طے پانے والا معاہدہ مدت پوری کر چکا ہے‘ ( فوٹو: اخبار 24)

سعودی جوہری پروگرام جس پر واشنگٹن پچھلی دہائیوں میں بات چیت سے گریزاں رہا، اب اس پر بات ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
 اس پروگرام کی خبر امریکی حکومت پہلے ہی لیک کر چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنے وژن 2030 کے تحت معدنیاتی تلاش کے دوران صحرا میں یورینیم دریافت کیاجو سول نیوکلیئر پروگرام کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔
سیاسی طور پر اگرچہ سعودی،امریکی تعلقات عمومی طور پر اچھے رہے ہیں لیکن اب بھی ان میں حتمی استحکام کی ضرورت ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بانی مملکت شاہ عبدالعزیز اور صدر روزویلٹ کے درمیان طے پانے والا اسٹراٹیجک معاہدہ (معاہدہ کوئنسی) اب اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔


’امریکہ کے ساتھ ایک طویل مدتی مثبت ورکنگ ریلیشن شپ کی بنیاد رکھی جائے‘ ( فوٹو: سبق)

صدر ٹرمپ اور سعودی قیادت اب ایک نئے اسٹراٹیجک معاہدے کی تلاش میں ہیں، خاص طور پر امریکہ کے بطور تیل برآمد کنندہ ملک کے ابھرنے، سعودی عرب کی چین اور انڈیا جیسی بڑی منڈیوں تک رسائی اور وژن 2030 جیسے بڑے اقتصادی منصوبے کے پس منظر میں۔
ٹرمپ کا یہ دوسرا دورۂ ریاض کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ موجودہ سیاسی فضا میں بشار الاسد کا زوال، حزب اللہ کی طاقت کا کمزور پڑنا، حوثیوں کی صلاحیتوں کا خاتمہ اور عراقی ملیشیاؤں کا پہلی بار امریکی و بین الاقوامی افواج پر حملے روک دینا اہم عوامل ہیں۔
 اس کے علاوہ خود ٹرمپ کا نیا اور جارحانہ اصلاحاتی پروگرام جس پر وہ امریکہ میں اور بیرونِ ملک عمل درآمد کر رہے ہیں، اس دورے کو ان کی پہلی صدارتی مدت کے دورے سے مختلف بناتا ہے۔
 اُن کے پاس ابھی چار سال سے تھوڑا کم وقت ہے جو اُن کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔


’ایک کھرب ڈالر پر مشتمل سرمایہ کاری جو سعودی عرب نے ٹرمپ سے کیے ہیں، یہ محض تحائف نہیں‘ ( فوٹو: سبق)

میرے خیال میں اس سربراہی اجلاس کا سعودی عرب کے لیے سب سے اہم نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور ٹرمپ کے ساتھ ایک طویل مدتی مثبت ورکنگ ریلیشن شپ کی بنیاد رکھی جائے۔
 گزشتہ 8 سال میں سعودی پالیسی کو عمومی طور پر کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے اور سابق ناقدین بھی اب اس کے مثبت نتائج کے معترف ہیں کیونکہ یہ تعلق باہمی مفادات پر مبنی ہے، اس لیے اس میں پائیداری کا امکان ہے۔
 اب دنیا کے کئی ممالک، بشمول یورپی اقوام، سعودی طرزِعمل کو اختیار کر رہے ہیں، یعنی صرف سیاسی و عسکری اتحاد پر انحصار کرنے کے بجائے مشترکہ مفادات کی تخلیق پر زور۔
ایک کھرب ڈالر پر مشتمل وہ سرمایہ کاری اور تجارتی وعدے جو سعودی عرب نے آئندہ دس برسوں کے لیے ٹرمپ سے کیے ہیں، یہ محض تحائف نہیں بلکہ دیو ہیکل منصوبے اور سرمایہ کاری ہیں۔
ان کی سنگینی اس بات سے محسوس کی جا سکتی ہے کہ اس دورے کے دوران طے پانے والے معاہدات اور ٹرمپ کی ٹیم کے ساتھ آنے والے افراد خود اس کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
 یہ انداز سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے طرزِ فکر سے ہم آہنگ ہے جو تعمیر، معیشت اور سیاسی و سیکیورٹی چیلنجز پر قابو پا کر ایک نتیجہ خیز اور دیرپا تعلق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ : الشرق الاوسط)

شیئر: