سعودی عرب کا جوہری پروگرام، عسکری معاہدے، دفاعی معاہدہ، غزہ کی جنگ کا خاتمہ، دو ریاستی حل کی راہ، ایران سے مذاکرات اور ایک کھرب ڈالر کے تجارتی و سرمایہ کاری منصوبے،یہ سب کچھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کا حصہ ہوں گے۔
ان کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی قیادت پر مشتمل ایک ٹیم کی آمد بھی متوقع ہے جن میں ایلون مسک، بطور وزیر اور ٹیسلا و اسپیس ایکس کے سربراہ، شامل ہوں گے۔
مزید پڑھیں
-
جی سی سی رہنماوں کو خلیجی، امریکی سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوتNode ID: 889531
-
پاکستان انڈیا جنگ بندی: سعودی عرب کی کامیاب سفارت کاریNode ID: 889564
علاوہ ازیں اوپن اے آئی، میٹا، الفابیٹ، بوئنگ اور سٹی گروپ کے سربراہان بھی موجود ہوں گے۔
یہ دورہ غیر معمولی اس لیے بھی ہے کہ صدر ٹرمپ کی صدارت میں یہ اُن کا پہلا سرکاری غیر ملکی دورہ ہےجو ان کی بین الاقوامی سفارتی سرگرمیوں کی شروعات ہے۔
اس دورے کی تیاری پچھلے دو ماہ سے جاری ہے اور امریکی و سعودی حکومتوں کی جانب سے اس سطح کی پیشگی تیاری پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
اس تیاری کے دوران متعدد مذاکرات ہوئے جن میں تمام سیاسی، اقتصادی اور دفاعی معاملات پر پیش رفت کی گئی۔

اس سے قبل علاقائی و عالمی رہنماؤں کے کئی دورے بھی ریاض ہو چکے ہیں تاکہ زیر بحث آنے والے موضوعات میں مزید نکات شامل کیے جا سکیں۔
گزشتہ پچاس برسوں میں امریکی صدور نے 12 مرتبہ سعودی عرب کے دورے کئے جیسا کہ امریکی وزارتِ خارجہ کے ریکارڈ میں درج ہے اور ہر دورہ اپنے وقت کے سیاسی و تاریخی پس منظر میں اہم رہا ہے۔
موجودہ تناظر میں صدر ٹرمپ کا یہ دورہ بڑے عالمی و علاقائی تغیر کے دور میں ہو رہا ہے جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ وسیع تبدیلی ہے۔
جہاں تک دو طرفہ تعلقات کا تعلق ہے تو ٹرمپ کا یہ دورہ نئے باب کا آغاز معلوم ہوتا ہے کیونکہ زیرِ بحث موضوعات کی نوعیت اور مجوزہ معاہدات غیر معمولی ہیں۔
سعودی جوہری پروگرام جس پر واشنگٹن پچھلی دہائیوں میں بات چیت سے گریزاں رہا، اب اس پر بات ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
اس پروگرام کی خبر امریکی حکومت پہلے ہی لیک کر چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنے وژن 2030 کے تحت معدنیاتی تلاش کے دوران صحرا میں یورینیم دریافت کیاجو سول نیوکلیئر پروگرام کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔
سیاسی طور پر اگرچہ سعودی،امریکی تعلقات عمومی طور پر اچھے رہے ہیں لیکن اب بھی ان میں حتمی استحکام کی ضرورت ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بانی مملکت شاہ عبدالعزیز اور صدر روزویلٹ کے درمیان طے پانے والا اسٹراٹیجک معاہدہ (معاہدہ کوئنسی) اب اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔
صدر ٹرمپ اور سعودی قیادت اب ایک نئے اسٹراٹیجک معاہدے کی تلاش میں ہیں، خاص طور پر امریکہ کے بطور تیل برآمد کنندہ ملک کے ابھرنے، سعودی عرب کی چین اور انڈیا جیسی بڑی منڈیوں تک رسائی اور وژن 2030 جیسے بڑے اقتصادی منصوبے کے پس منظر میں۔
ٹرمپ کا یہ دوسرا دورۂ ریاض کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ موجودہ سیاسی فضا میں بشار الاسد کا زوال، حزب اللہ کی طاقت کا کمزور پڑنا، حوثیوں کی صلاحیتوں کا خاتمہ اور عراقی ملیشیاؤں کا پہلی بار امریکی و بین الاقوامی افواج پر حملے روک دینا اہم عوامل ہیں۔
اس کے علاوہ خود ٹرمپ کا نیا اور جارحانہ اصلاحاتی پروگرام جس پر وہ امریکہ میں اور بیرونِ ملک عمل درآمد کر رہے ہیں، اس دورے کو ان کی پہلی صدارتی مدت کے دورے سے مختلف بناتا ہے۔
اُن کے پاس ابھی چار سال سے تھوڑا کم وقت ہے جو اُن کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔