Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے لیے پہلا گولڈ میڈل جیتنے والے پہلوان ’بابا دین محمد‘ کون تھے؟

دین محمد اپنے گاؤں باٹا پور میں غربت اور گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے پہلے بین الاقوامی گولڈ میڈلسٹ ریسلر دین محمد 100 سال سے زائد عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔
دین محمد نے 1954 کے ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے تاریخ کا پہلا گولڈ میڈل جیت کر ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کیا تھا۔ ان کی وفات سے پاکستان کے کھیلوں کی تاریخ کا ایک سنہری باب بند ہو گیا ہے۔
دین محمد کا تعلق لاہور کے مضافاتی علاقے باٹا پور سے تھا جہاں وہ ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں تاہم رواں سال فروری 2025 میں ان کی عمر 100 سال سے زائد بتائی گئی تھی۔
پاکستانی ریسلنگ کی روایت میں گہری جڑیں رکھنے والے دین محمد نے کم عمری میں ہی پہلوانی کا شوق اپنایا اور مقامی اکھاڑوں میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارا۔
اس زمانے میں پہلوانی ایک مقبول کھیل تھا۔ دین محمد کے عزم اور محنت نے جلد ہی انہیں مقامی سطح پر شہرت دی اور وہ قومی مقابلوں میں نمایاں ہو گئے۔

پاکستان کا بین الاقوامی کھیلوں میں پہلا گولڈ میڈل

صدر پنجاب ریسلنگ چوہدری ارشد ستار بتاتے ہیں کہ دین محمد ان کی اصل کہانی 1954 میں شروع ہوتی ہے جب منیلا، فلپائن میں منعقدہ دوسرے ایشین گیمز میں انہوں نے فلائی ویٹ (52 کلوگرام) کیٹیگری میں حصہ لیا۔
’یہ وہ لمحہ تھا جب انہوں نے پاکستان کے لیے تاریخ رقم کی۔ انہوں نے فلپائن، انڈیا، اور جاپان کے نامور پہلوانوں کو شکست دے کر گولڈ میڈل جیتا جو پاکستان کا بین الاقوامی کھیلوں میں پہلا گولڈ میڈل تھا۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں صدر پنجاب ریسلنگ چوہدری ارشد ستار نے بتایا کہ ’دین محمد نے جاپان کے مشہور پہلوان یوشو کیتانو کو شکست دی جو اس وقت فلائی ویٹ کیٹیگری میں بڑا نام تھا۔‘

جب دین محمد گولڈ میڈل جیت کر وطن واپس آئے تو لاہور کے لوگوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ایک یادگار واقعے میں انہیں شہر بھر میں ہاتھی پر بٹھا کر جلوس نکالا گیا۔
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دین محمد نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’لوگوں نے ہاتھی واپس لے لیا اور میرے پاس گھر جانے کے لیے پیسے تک نہیں تھے۔‘
ایشین گیمز کے گولڈ میڈل کے علاوہ، دین محمد نے کامن ویلتھ گیمز میں بھی برونز میڈل جیتا جس نے ان کی عالمی شہرت کو مزید مستحکم کیا۔ انہوں نے متعدد بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور ہر بار قومی پرچم سربلند کیا۔
ان کی ریسلنگ کا انداز طاقت، تکنیک، اور عزم کا حسین امتزاج تھا، جو انہیں اپنے دور کے دیگر پہلوانوں سے ممتاز کرتا تھا۔

’پہلوانی نے میری غربت ختم نہ کی‘

دین محمد کی زندگی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ مشکلات سے بھرپور رہی۔ 2020 میں 95 سال کی عمر میں وہ اپنے گاؤں باٹا پور میں غربت اور گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے تو مقامی میڈیا کے ایک صحافی نے ان کا انٹرویو کیا۔
اس انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کی کامیابیوں پر مقامی لوگوں نے تو جشن منایا، لیکن حکومتی سطح پر انہیں کوئی خاص امداد یا خراج تحسین نہ ملا۔ ’پہلوانی نے میری غربت ختم نہ کی۔‘
اُس وقت کی وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے 2020 میں پاکستان سپورٹس بورڈ کے اجلاس میں دین محمد کے لیے پانچ لاکھ روپے کی امداد کی منظوری دی جو ان کی صحت کے مسائل کے علاج کے لیے تھی۔

پنجاب کے سابق وزیر کھیل رائے تیمور بھٹی نے دین محمد کو مالی امداد کا چیک دیا تھا (فوٹو: اے پی پی)

تین جولائی 2025 کو دین محمد طویل علالت کے بعد اپنے آبائی گھر باٹا پور میں انتقال کر گئے۔ ان کی نماز جنازہ باٹا پور میں ادا کی گئی جس میں کھیلوں سے وابستہ متعدد شخصیات نے شرکت کی۔
صوبائی وزیر کھیل فیصل ایوب کھوکھر نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’دین محمد کی قوم اور ریسلنگ کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ایک سچے قومی ہیرو ہیں۔‘
ڈائریکٹر جنرل سپورٹس پنجاب خضر افضال چوہدری نے کہا کہ ’ دین محمد نے قوم کو فخر دیا۔‘ صدر لاہور ریسلنگ ایسوسی ایشن مہر اکرم عرف کالا پہلوان نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
سوشل میڈیا پر کھیلوں کے شائقین اور شخصیات نے دین محمد کی خدمات کو سراہا۔ وفاقی وزیر عبدالعلیم خان نے کہا کہ ان کی وفات سے پاکستان نے ایک عظیم کھلاڑی کھو دیا۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’دین محمد کا نام پاکستانی ریسلنگ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔‘
دین محمد کی کامیابیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ اگرچہ ان کے معاصر کھلاڑیوں کے براہ راست انٹرویوز محدود ہیں لیکن عظیم گاما پہلوان کے دور سے پاکستانی ریسلنگ کی روایت کو آگے بڑھانے والوں میں دین محمد کا نام نمایاں ہے۔
عظیم گاما کے بھتیجے بھولو پہلوان جنہیں گاما نے تربیت دی، نے بھی پاکستانی ریسلنگ کو عالمی سطح پر متعارف کروایا جبکہ دین محمد اسی روایت کے امین تھے۔
ان کے 1954 کے گولڈ میڈل نے بعد کے کھلاڑیوں، جیسے محمد بشیر (1960 اولمپکس میں برونز میڈل) نے روایت برقرار رکھنے کی کوشش کی۔

 

شیئر: