’’ہم اصحابِ رسول کو جب بھی کو ئی دینی مسئلہ مشکل آیا تو ہم نے حضرت عائشہؓ سے پو چھا اور ہمیشہ اس مسئلہ کے بارے میں ان کے پاس علم پایا‘‘
* * * * *شیخ محمد منیر قمر۔الخبر* * * *
ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت صدیقِ اکبرؓ کی بیٹی تھیں ۔ ان کا شجرۂ نسب نبی کے ساتو یں پشت کے دادا مرہ میں جاکر نبی سے ہی مل جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ کا نبی اکرم سے نکاح تو مکہ مکر مہ میں نبوت کے دسویں سال ماہِ شوال میں ہوا تھا مگر رخصتی ہجرت کے پہلے سال ماہِ شوال میں جاکر مدینہ منورہ میں ہو ئی ۔ نبی کی ازواجِ مطہرات ؓمیں سے صرف یہی ایک خاتون ایسی ہیں کہ جن کا پہلا نکاح نبی سے ہی ہوا جبکہ دیگر تمام امہات المؤ منین وزوجاتِ رسول بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں ۔ اسی مناسبت سے ہی حضرت عائشہ ؓ کو ایک عظیم شرف بھی حاصل ہوا کہ نبی کی ازواجِ مطہراتؓمیں سے یہ واحد زوجۂ محترمہ تھیں کہ نبی پر ان کے بسترمیں ہو نے کے با وجود بھی وحی کے نزول میں تاخیر نہیں ہو تی تھی چنانچہ صحیح بخاری شریف و مسلم شریف، سنن ترمذی، مسند احمد اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں ایک واقعہ کے ضمن میں مذکور ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓسے مخاطب ہو کر نبی نے فرمایا ’’مجھے عائشہ ؓکے بارے میں (کچھ کہہ کر) اذیت وتکلیف مت پہنچا ؤ ، اللہ کی قسم ! یہ عائشہ ؓ ہی ہیں کہ میں اس کے لحاف میں ہو تا ہوں تو اس وقت بھی مجھ پر وحی کا نزول ہو جا تا ہے مگر دیگر ازواجِ مطہراتؓ کے بستروں پر کبھی ایسانہیں ہوا‘‘
اسی واقعہ کے ضمن میں یہ بھی مذکور ہے کہ پھر اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ الزہراء ؓ سے مخاطب ہو کر فر مایا ’’اے میری بیٹی !کیا تم اس سے محبت نہیں رکھتی ہو جس سے میں محبت رکھتا ہوں ‘‘تو حضرت فاطمہؓنے فرمایا ، کیوں نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ’’تب پھرعائشہ ؓسے محبت رکھ‘‘( صحیح مسلم مع النووی ) حضرت عائشہؓکے بسترمیں حضرت امام الانبیاء والرسل پر وحی نازل ہو نے والی حدیث کی شرح بیان کر تے ہو ئے شارحین نے لکھا ہے کہ یہ حضرت عائشہ ؓ کی بہت بڑی سعادت وفضیلت ہے اور اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا بستر مردوں میں سے صرف نبی اکرم ہی کیلئے خاص تھا کیو نکہ وہ واحد کنواری خاتون تھیں جن کا نبی اکرم سے ہی پہلا نکاح ہواتھا جبکہ دیگر ازواجِ مطہرات ؓ میں یہ چیز نہیں تھی بلکہ ان سب میں ہرایک کی زندگی میں نبی سے قبل بھی ایک ایک مرد آچکے تھے ۔
اس اعتبار سے اور من کل الوجوہ حضرت عائشہؓ کو جویہ شرف حاصل ہوا وہ اس کی بجاطوپر مستحق تھیں ۔ حضرت عائشہ ؓکے بستر میں نزولِ وحی کے اختصاص کی حکمت کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حضرت ابو بکرؓ کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے تھا ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اُن کپڑوں کو انتہائی صاف ستھرا رکھتی تھیں جن میں وہ نبی کے ساتھ ہو تی تھیں (فتح الباری) کتاب مدارج النبوۃ جلد دوم میں حضرت عائشہ ؓ کی جود و سخاکے بارے میں حضرت عروہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت عائشہ ؓ نے ایک ہی دن میں70 ہزار در ہم راہِ للہ صرف کئے جبکہ خود پیوند لگا کرتہ پہنے ہو ئے تھیں ۔ ایک دن حضرت عبد اللہ بن زبیرؓنے ان کی خدمت میں ایک لا کھ درہم بھیجے جو سب انہوں نے اسی روز صدقہ کردیئے ۔ خود روزہ سے تھیں ، شام کو کنیز نے سوکھی روٹی سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اگر سالن کیلئے کچھ بچا لیا ہوتا تو تیار کر لیتی ۔ حضرتِ صدیقہ ؓنے فرمایا’’مجھے تو خیال ہی نہ رہا ،تو نے ہی یاددلا یا ہوتا‘‘ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو اللہ تعالیٰ نے بڑامقام و مرتبہ عطا کیا تھا ۔ ام المؤ منین حضرت خدیجہ ؓ کے فضائل کے ضمن میں ایک ارشادِنبوی ملتا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجا اور خود حضرت جبریل ؑ نے بھی انہیں سلام کہا جبکہ حضرت عائشہؓ کو بھی حضرت جبریل علیہ السلام نے سلام کہا تھا جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم، ابوداؤد وترمذی اور مسند احمد میں مذ کور ہے کہ نبی نے فرمایا’’اے عائشہ ! یہ حضرت جبریل ؑہیں جو تمہیں سلام کہہ رہے ہیں‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے جواب میں کہا’’وَعَلَیْہِ ا لسَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ‘‘اور فرمایا :نبی جو کچھ دیکھ رہے تھے ، وہ میں نہیں دیکھ رہی تھی۔ ان کی مراد حضرت جبریل ؑتھے ۔
بخاری و مسلم کی ایک متفق علیہ حدیث میں ارشادِ نبوی ہے ’’ اے عائشہؓ !مجھے 3 راتیں مسلسل تم دکھائی گئی ہو ،ایک فرشتہ تمہیں ریشم کے کپڑ ے میں لپیٹ کر لاتا اور مجھے کہتا کہ یہ آپ کی بیوی ہے اور جب میں تمہارے چہر ے سے کپڑ اٹھاتا تو وہ تم ہی ہو تیں‘‘ تب میں نے کہا’’کہ یہ خواب اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ خود ہی اسے پورا کر دے گا‘‘ اس خواب کی تعبیر حقیقت کا روپ دھار گئی اور حضرت عائشہؓ،نبی ٔاکرم کے حرمِ زوجیت میں داخل ہو گئیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شادی کا اہتمام بھی حظیرۃ القدس میں کیا گیا تھا ۔
نبی نے اس شادی کو من جانبِ اللہ قرار دیا تھا ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عمار بن یاسرؓسے مروی ہے ’’میں جانتا ہوں کہ حضرت عائشہ ؓ ،نبی کی دنیا وآخرت دونوں جہانوں کی بیوی ہیں ‘‘حضرت عمار ؓ کا یہ قول اُس ارشادِ نبوی سے ماخوذ ہے جو صحیح ابن حبان میں ہے کہ نبی نے حضرت عائشہ ؓسے فرمایا تھا ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں ہی میری بیوی ہو ‘‘ ترمذی شریف میں ایک صحیح حدیث ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کا یہ ارشاد بھی خاص اشارۂ الٰہی تھا چنانچہ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت جبریل ؑسبز رنگ کے ریشم میں لپیٹ کر حضرت عائشہ ؓ کی تصویر نبی کی خدمت میں لائے اور فرمایا ’’یہ آپکی دنیا وآخرت دو نوں جہانوں کی بیوی ہے‘‘ ان تینوں حدیثوں پر معمولی سا غور کر نے سے کتنے ہی مسائل واضح ہو جا تے ہیں ، مثلاً:
پہلا :یہ کہ حضرت عائشہ ؓ کا نبی سے نکاح ، منشائے الٰہی اور خاص اہتمامِ الٰہی سے ہوا ۔ دوسرا : یہ کہ یہ نکاح دنیا وآخرت دو نوں جہانوں کیلئے دائمی تھا ۔ تیسرا : یہ کہ حضرت عائشہ ؓ اہلِ جنت میں سے ہیں اور وہاں بھی نبی کی بیوی اور آپ کے ساتھ ہوں گی ۔ بخاری و مسلم ، ترمذی اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے کہ مردوں میں سے تو بہت درجۂ کمال کو پہنچے ہیں مگر عورتوں میں سے صرف حضرت مریم بنت عمران اور آسیہ علیہما السلام زوجہ فرعون ہی درجۂ کمال کو پہنچی ہیں اور پھر ساتھ ہی ارشاد فرمایا’’اور عائشہ ؓ کو تو سب عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کو سب کھانوں پر‘‘ حضرت ابو بکر صدیق ؓکے ذکر میں بخاری و مسلم اور ترمذی وغیرہ کی حدیث ملتی ہے کہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے نبی سے پو چھا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟ تو آپ نے فرمایا’’عائشہ ؓ ‘‘ اور پو چھا کہ مردوں میں سے کون ؟ تو فرمایا’’ان کے والد یعنی ابوبکر صدیق ؓ ‘‘ حضرت خدیجہؓ ، فاطمہؓ اور عائشہ ؓ میں بہت سے فضائل مشترک ہیں اور بعض متفاوت، اور مجموعی طور پر افضلیت کسے حاصل ہے ؟اس میں اختلاف ہے ۔غرض حضرت عائشہؓ خیروبرکت کا پیکر تھیں اور اس امر کی گواہی صحیح بخاری شریف میں حضرت اُسید بن حضیر ؓ کی زبانی منقول ہے کہ ایک سفر کے دوران سیدہ عائشہؓ کا ہارگم ہو گیا ، تلاش کر نے والوں نے نماز کا وقت ہو جا نے اور پا نی نہ ہو نے کی وجہ سے بلا وضو ہی نماز ادا کرلی۔
نبی سے جب اس بات کا ذکر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ کی آیت6 اور سورہ النساء کی آیت43 آیتِ تیمم نازل فر ما ئی ۔ اس وقت حضرت اسیدؓنے فر مایا تھا ’’اے عائشہؓ ! اللہ تمہیں جزائے خیردے ، اللہ کی قسم ! جب بھی کبھی آپ کا کو ئی کام اٹکاتو آپ کیلئے خود اللہ نے بہترراہ نکا لی ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے بھی برکت نازل فرمائی (اس سے ان کی مراد رخصت ِتیمم کا نزول ہے )‘‘ حضرت عائشہؓ کے علم وفضل کا اندازہ ترمذی شریف اور شرح السن بغوی میں مذکور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے اس ارشاد سے لگا یا جاسکتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’ہم اصحابِ رسول کو جب بھی کو ئی دینی مسئلہ مشکل آیا تو ہم نے حضرت عائشہؓ سے پو چھا اور ہمیشہ اس مسئلہ کے بارے میں ان کے پاس علم پایا‘‘ ترمذی شریف وغیرہ میں ہی حضرت عائشہ ؓ کی فصاحت و بلاغت کی گواہی حضرت موسیٰ بن طلحہؓ سے منقول ہے ، فرما تے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر فصیح اللسان کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ 2ہزار2سو10 حدیثوں کی راوی ہیں جن میں سے 174متفق علیہ ، 54بخاری ، 67صرف صحیح مسلم اور 1017دیگر کتبِ معتبرہ میں ہیں۔فتاویٰ شرعیہ ، حل مشکلاتِ علمیہ ، بیان روایاتِ عربیہ اور واقعاتِ تاریخیہ اس پر مستزاد ہیں ، آپؓکے خطبات الگ ہیں۔