اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی قیدیوں پر جنسی تشدد کے معتبر شواہد موجود ہیں: اقوام متحدہ
مارچ میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انسانی حقوق کے ماہرین نے اسرائیل پر ’جنسی، تولیدی اور دیگر صنفی بنیادوں پر تشدد کے منظم استعمال‘ کا الزام لگایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس ’معتبر معلومات‘ موجود ہیں کہ اسرائیلی افواج نے زیرِ حراست فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اور دیگر خلاف ورزیاں کی ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر نے ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا ہے۔
انتونیو گوتیریس نے سفیر ڈینی ڈینن کو ایک خط میں کہا کہ انہیں اسرائیلی فوج اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے کئی جیلوں، ایک حراستی مرکز اور ایک فوجی اڈے میں فلسطینیوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں پر ’شدید تشویش‘ ہے۔
گوتیریس نے خبردار کیا کہ اگر ان الزامات میں تسلسل پایا گیا تو وہ اپنی اگلی رپورٹ میں اسرائیلی افواج کو جنگی جنسی تشدد کے مرتکب اداروں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں، کیونکہ اقوام متحدہ کی دستاویزات میں جنسی تشدد کی کچھ اقسام کے منظم واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ڈینی ڈینن نے منگل کو یہ خط اور اپنا جواب عام کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ یہ الزامات ’متعصب ذرائع کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں۔‘
’اقوام متحدہ کو حماس کے جنگی جرائم اور جنسی تشدد پر توجہ دینی چاہیے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘
ڈینن کا اشارہ 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے اچانک حملے کی طرف تھا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں خواتین کو جنسی زیادتی اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
اس حملے کے نتیجے میں غزہ میں جاری جنگ شروع ہوئی، جس میں اب تک غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 61,400 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈینن نے زور دیا کہ ’اسرائیل اپنے شہریوں کے تحفظ سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق کارروائیاں جاری رکھے گا۔‘
گوتیریس نے کہا کہ چونکہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو رسائی نہیں دی، اس لیے اسرائیلی افواج کے جنسی تشدد کے منظم استعمال کے رجحانات یا پیٹرن کی حتمی تشخیص کرنا ’چیلنجنگ‘ رہا ہے۔
انہوں نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ’تمام جنسی تشدد کو فوراً بند کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے، اور مخصوص وقت میں ان کو بند کرنے کے ٹھوس وعدے کرے۔‘
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ان وعدوں میں معتبر الزامات کی تحقیقات، فوج اور سکیورٹی فورسز کے لیے واضح احکامات اور اخلاقی ضابطے شامل ہوں جو جنسی تشدد کی ممانعت کریں، اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو بلا رکاوٹ رسائی دی جائے۔
مارچ میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انسانی حقوق کے ماہرین نے اسرائیل پر ’جنسی، تولیدی اور دیگر صنفی بنیادوں پر تشدد کے منظم استعمال‘ کا الزام لگایا تھا۔
’کمیشن آف انکوائری آن دی اوکیوپائیڈ پیلسٹینیئن ٹیریٹری‘ نے فلسطینی خواتین، مردوں، لڑکیوں اور لڑکوں کے خلاف مختلف خلاف ورزیوں کی دستاویزات اکٹھی کیں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز پر زیر حراست فلسطینیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات عائد کیے۔
اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، جس نے یہ ماہرین مقرر کیے تھے، کو ’اسرائیل مخالف سرکس‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ادارہ ’یہود دشمن، بدعنوان، دہشتگردی کا حامی اور غیر متعلقہ‘ بن چکا ہے۔