Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اولاد کی 4اقسام

اولادوطن کی مٹی دیارِ غیرلے جا کر اس میں ہاتھ ڈالتی ہے تو سونا بن جاتی ہے یوں وہ خود کو خوش قسمت قرار دیتی ہے
شہزاداعظم
بحیثیت انسان ہم نے زندگی کے جتنے بھی شعبوں میں قدم رکھا، ہمیں لائق تقلید شخصیت سے پالا ضرورپڑا، مثلاً جب ہمیں ٹاٹ اسکول کی کچی میں داخل کرایا گیا تو پہلے ہی روزمس شکیلہ کی شکل میں ہمیں لائق تقلید ہستی سے10سالہ سیکھا سکھائی کا موقع ملا ۔ ہم نے مس شکیلہ کے زیر تربیت پروان چڑھتے ہوئے جب بھی خود کو ہم ٹاٹ نشیںکہتے تووہ ہمیں فوری ٹوک دیا کرتیں اور کہتیں کہ اپنے آپ کو ٹاٹ نشیں نہیں بلکہ بوریہ نشیںکہا کریں کیونکہ بوریہ نشینی میں صرف ٹاٹ پر بیٹھنے کے معانی ہی پوشیدہ نہیں بلکہ اس میں سادگی، سنجیدگی، بے اعتنائی ، خودداری اور غم گساری جیسے مفاہیم بھی پنہاں ہیں۔بہر حال ٹاٹ اسکول میں ”بوریہ نشینی“ کا عشرہ گزارنے کے بعد جب ہم ”ٹاٹ کالج“ میں پہنچے تو وہاں پہلے ہی روز مس نبیلہ کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا۔وہ بھی ہمارے لئے لائق تقلید ہستی ثابت ہوگئیںکیونکہ ان کی ایک بات ہماری ذہانت میں یوں سرایت کر گئی جیسے صدیوں کی خشک سالی کا شکار زمین میں شبنم کا قطرہ۔وہ بات یہ تھی کہ مس نبیلہ ہر کسی کو اس کے والد کے نام سے مگر اپنے مخصوص انداز اور اصطلاح میں پکارتی تھیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے ہمارے ایک ہم جماعت سے سوال کیا کہ تمہارا نام کیا ہے ، اس نے کہا ضمیر، انہوں نے فرمایا کہ تمہارے ابو کا نام؟اس نے کہا نصیر۔ یہ سن کر مس نبیلہ نے کہا کہ آج کے بعد سے میں تمہیں”نصیر کا نِکا“ کہہ کر بلایا کروں گی۔ اب انہوں نے ہماری ایک ہم جماعت سے استفسار کیا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟اس نے کہا رخسانہ ۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری والد ہ کا نام ؟ اس نے کہا ”فرزانہ “، مس نبیلہ نے کہا کہ آج کے بعد سے میں تمہیں ”فرزانہ کی نکی“ کہا کروں گی۔اب وہ ہماری جانب متوجہ ہو کر گویا ہوئیں کہ تمہارا نام کیا ہے؟ہم نے کہا ”اعظم کا نِکا“۔ہماری فطانت کے اس مظاہرے سے مس نبیلہ بے حد متاثرہوئیں اور انہوں نے ہمیں اپنے ذہین ولائقِ تحسین طلبہ کی فہرست میں اولیں مقام دے دیا۔ہم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مس نبیلہ سے پوچھ ہی لیا کہ محترمہ یہ فرمائیے کہ آپ اپنے طلبہ و طالبات کو ذاتی ناموں کی بجائے والد یا والدہ کا نکا یا نکی کہہ کر کیوں پکارنے پر بضد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آپ کوانگریزی میں آپ کے والد کے حوالے سے ”اعظم جونیئر“ کہوں تو آپ حیران نہیں ہوتے اور اگر پنجابی میں ”اعظم کا نِکا“ کہہ رہی ہوں تو آپ حیرت و استعجاب کی تصویر بنے سوال کر رہے ہیں کہ ”نکا ، نکی“ کیوں کہا جا رہا ہے ۔ ہم نے کہا کہ اس کی بجائے آپ ہمیں فلاں کے برخوردار یا فلاں کی صاحب زادی بھی تو کہہ سکتی ہیں۔ اس کا ہمیں مس نبیلہ نے جو جواب دیا اس نے ہمیں آگہی کی ایک نئی دنیا سے روشناس کرا دیا۔انہوں نے وضاحت یوں فرمائی کہ:
ہر انسان اپنے والدین کی اولاد ہوتا ہے تاہم اعمال و افعال کے اعتبار سے اولاد کو 4درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے معیاری اور قابل رشک اولادلڑکا ہو تو صاحبزادہ اور لڑکی ہو تو صاحبزادی کہلاتی ہے، دوسرے درجے کی اولادلڑکا ہو تو برخوردار اورلڑکی ہو تو برخورداری، تیسرسے درجے کی اولاد لڑکا ہو تو بیٹااور لڑکی ہو تو بیٹی جبکہ آخری درجے کی اولاد لڑکا ہو تو پُتر اور لڑکی ہو تو ”دھی“ کہلاتی ہے۔ اب آپ میں سے کون اولاد کے پہلے درجے پر فائز ہے اور کون آخری پر، اس کا فیصلہ کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ والد کا نکا اور والدہ کی نکی کہہ کر پکار لیاجائے۔ان چاروں درجات میں سب سے پہلے ہم آخری درجے کی اولاد یعنی پُتر کے خصائل انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
پُتر عموماً بے روزگار ہوتے ہیں ۔ جوان جپان ہونے کے باوجود 24گھنٹے گھر میں پڑے رہتے ہیں۔ انہیں اکثر و بیشتر گھر ماں یا باپ سے سننا پڑتا ہے کہ ”کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے“، اس کے باوجود وہ چکنا گھڑا بنے رہتے ہیں۔ وہ اپنی ماں سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے ابا سے جیب خرچ دلانے والی ہستی ماں ہی ہوتی ہے۔یہ قسم فرمانبردار، محب وطن اور محنتی مگر خاصی بدقسمت ہوتی ہے۔ یہ سونے میں ہاتھ ڈالے تو مٹی ہو جاتا ہے۔تیسری قسم کی اولاد بیٹا یا بیٹی کہلاتی ہے۔ یہ ذرا پڑھااور مہم جُو قسم کی ہستیاں ہوتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی سنوارنے کی کوشش میں جُتے رہتے ہیں اور والدین کو تسلی دیتے رہتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں، چند دن اور ہیں، مجھے بہت جلد نوکری مل جائےگی اور سارے دَلِدَّر دور ہوجائیں گے۔ اس قسم کی نسل ماں باپ کی تو کسی حد تک فرمانبردار ہوتی ہے مگر وطن سے عشق نہیں ہوتا ۔ وہ محنت سے بھی جی چراتے ہیں۔جب کمانے لگتے ہیں تو والدین کوہر ماہ لگی بندھی رقم تھما دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس اسی میں گزارہ کیجئے گا کیونکہ مہنگائی بہت ہے، ہماری تو اپنی گزر بسر مشکل سے ہی ہوتی ہے۔یہ لوگ خوش و بد قسمت ہوتے ہیں۔کبھی سونا ہاتھ میں آکرپیتل ہو جاتا ہے اور کبھی پیتل سونا بن جاتا ہے ۔دوسرح قسم برخوردار اور برخورداری کی ہے۔ یہ ہستیاںچلترہوتی ہیں۔ والدین کو بہلاتی ہیں کہ ہم بہت جلد اعلیٰ قسم کا کاروبار جما لیں گے، پیسے کی خوب ریل پیل ہو گی۔بیرون ملک گھومنے جایا کریں گے۔ بس مجھے فلاں بینک یا مالیاتی ادارے سے قرضہ مل جائے تو تمام ”جوتیاں سیدھی“ ہوجائیں گی۔ اس قسم کی اولادوں کو اپنے اماں ابا سے زیادہ محبت نہیں ہوتی۔ وہ ان کی فرمانبرداری اس وقت تک کرتے ہیں جب تک ان کا اُلو سیدھا نہیں ہوجاتا اور وہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ ایسی شخصیات میں وطن سے محبت کا جذبہ صرف قومی دنوں کے موقع پرجاگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی غیر ملک جانے کا موقع ملتے ہی وہ وطن کو خیر بار کہہ دیتے ہیں۔ وہ سال میں 2یا 3مرتبہ والدین کو چند ہزار روپے ارسال کر کے سمجھتے ہیں کہ سومنات فتح کر لیا۔اس کے ساتھ ہی وڈیو کا ل کر کے کہتے ہیں کہ وہی بات ہے، دور کے ڈھول سہانے، یہاں میں اور میری بیوی دونوں کماتے ہیں پھر بھی حالت یہ ہے کہ سر ڈھانپو تو پیر کھلتے ہیں اور پیرچھپاﺅ تو سر۔یہ سن کر والدین ایک دوسرے کو لا یعنی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ماں بے چاری اپنی ممتا سے تشکر آمیز تبسم کشید کر کے لبوں پر بکھیر لیتی ہے۔یہ خوش قسمت کہلاتے ہیں۔پہلی قسم کی اولاد صاحبزادہ اور صاحبزادی کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کو اپنا وطن صرف اس لئے کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے اسی ارضِ پاک کے کسی میٹرنٹی ہوم میں آنکھ کھولی ہوتی ہے۔ اسے وہ اپنے والدین کی غفلت، لا پروائی، بے اعتنائی ، عدم توجہی قرار دیتے ہیں جواباً والدین بھی اپنی اس ”مجرمانہ غفلت“پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے ازالے کےلئے انہیں اسکولی عمر میں ہی ٹھنڈے ملک روانہ کر دیتے ہیں۔ وہ وہاں کے رنگ میں رنگے جانے کے بعد وہیں کے ہو رہتے ہیں اور والدین کبھی چھینک، کھانسی، بخاراور کبھی درد، چبھن، عدم قرار کی شکایات دور کرانے کےلئے اولادکے پاس جاتے رہتے ہیں۔ یہ اولادوطن کی مٹی دیارِ غیرلے جا کر اس میں ہاتھ ڈالتی ہے تو سونا بن جاتی ہے یوں وہ خود کو خوش قسمت قرار دیتی ہے۔ وہ اپنے والدین کو اربوں ڈالر تحفہ دیتی ہے اور والدین انہیں فرمانبردار سمجھتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو اپنے وطن کا نہیں ہوا ، وہ ماں باپ کا کےسے ہوگا۔ جب والدین پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے تو وہ پچھتاتے ہیں کہ کاش ہماری اولادوں میں صاحبزادے اور صاحبزادی کی بجائے پُتر اور دھی
 ہوتے تو ہم کتنے خوش قسمت ہوتے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: