Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کا ڈھنگ پر آنا

ترقی پزیر ممالک کی سیا ست میں جذباتیت کا عنصر کو ٹ کو ٹ کر بھرا ہو ا ہے
* * * سید شکیل احمد * * *
نیو یا رک میں ان دنو ں وزیراعظم پا کستان شاہد خاقان عباسی براجما ن ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلا س میں شرکت کی غر ض سے نیو یا رک میں ہیں ۔ انھو ںنے جنرل اسمبلی کے اجلا س کیلئے آئے ہو ئے عالمی لیڈروںسے ملا قاتیں بھی کرلیں جن میں نائب امریکی صدر مائیک پنس سے ان کی خواہش پر ملا قات کی ۔ دوران ملا قات جنو بی ایشیا کی صورتحال اور افغان مسئلے کا بھی ذکر چھڑا جس پر وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان اور جنو بی ایشیا کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر سے پید اہونیوالی صورتحال کے پس منظر میں پاکستان کی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں سے مو صوف کا آگا ہ کیا ، جس کے بعد یہ طے پایا کہ افغانستان کے مسئلے پر مذاکر ات کیے جائیں گے اور امریکی وفد اس بارے میں ماہ اکتو بر میں پاکستان کا دورہ کر ے گا ۔ مذاکرات جا ری رکھنے کا فیصلہ مثبت اقدام ہے ۔
امریکہ نے بھی اس ملا قات میں ڈو مور کا لہجہ استعمال نہ کر کے ڈھنگ میںآنے کی سعیٔ مفید کی ہے ۔امید تو یہ کی جا سکتی ہے کہ جب وزیر اعظم پاکستان نے قومی سلا متی کمیٹی کے فیصلو ں کے بارے میں نائب امریکی صدر کو آگا ہ کیا ہو گا تو ان کو یہ احساس ضرور ہو ا ہو گا کہ پاکستان نائن الیو ن کے ماحول سے نکل گیا ہے ۔وہاں اب جمہو ر کی حکمر انی ہے کوئی فوجی آمرنہیں بیٹھا ہے ۔ایک جمہو ری حکومت اور ایک آمر انہ حکومت کا یہی تو فرق ہے کہ جمہو ری حکمران کی نظریں عوام کے فیصلو ں پر ہو تی ہیں اور آمر کے فیصلے اپنی حکمرانی کی خواہشات پر مبنی ہوا کر تے ہیں ۔
جہا ں تک ترقی پزیر ممالک کی سیا ست کا تعلق ہے تو اس میں جذباتیت کا عنصر کو ٹ کو ٹ کر بھرا ہو ا ہے۔ یہ منظر جنو بی ایشیا کے ممالک میں بدرجہ اتم ملتا ہے جیسا کے سابق وزیر داخلہ چوہدر ی نثار کوجب سے یہ یقین ہو ا کہ وزیر اعظم کی کر سی پر براجما ن ہونے کاجو خلا ء پید ا ہو گا وہ ان سے پُر نہیں کیا جائے گا تب سے ان کو مسلم لیگ ن کی قیادت میں غلطیاں نظر آنے لگی ہیں ۔ وہ یہ فرما تے ہیں کہ غلط سوچ کے حامل سے فیصلے لئے جا تے رہے ہیں ۔مسلم لیگ ن میں ایسا مو قف رکھنے والے چوہدری نثار تنہا شخصیت ہیں۔ ان کی تائید پارٹی میں سے اب تک کسی طرف سے نہیںہوئی، گویا وہ مسلم لیگ میں واحددانا بینا ہیں۔ خواجہ آصف سے تو ان کی وزیر بننے کے روز سے ہی نہیں چھنتی تھی، اب تو خواجہ آصف ان کی نظرمیں ملک دشمن ٹھہر ے ہیں ۔خیر یہ مسلم لیگ ن کی اند ر کی بات ہے۔اُس وقت تک اندر کی بات رہے گی جب تک چو ہدری نثار مسلم لیگ ن کے اند ر رہیں گے وہ اسی طر ح اپنے گردے لال بھی کرتے رہیں گے، تاہم ان کیلئے انتظار کا مر حلہ تھو ڑا ہی رہ گیا ہے کیو نکہ یہ بات تو طے ہے کہ وہ اب مسلم لیگ ن کے مو جو دہ سیٹ اپ میں نہیں کھپ سکتے اور نیا سیٹ اپ وہ قوتیں بنارہی ہیں جن کے بارے میں مریم نو از نے کہا ہے کہ حلقہ این اے 120کے انتخابا ت میں مقابلہ ان امیدواروں سے ہی نہیں تھا جو اس میں حصہ لے رہے تھے بلکہ نا دیدہ قوتو ں سے بھی تھا۔ کہا جا تا ہے کہ انہی نا دیدہ قوتو ں نے ہی جو الیکشن کے روز سرگرم بھی نظر آتی رہیں مذہبی نا م کی پر چیا ں چسپا ں کر کے جنم دلو ایا اور پھر مقابلے میں کھڑ ا بھی کر دیا ۔
ان نو مولود جما عتو ں نے قابل ذکر ووٹ لئے، اس کی تعریف کرنا چاہیے ، چا ہے وہ کسی طور حاصل کئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ لا ہو ر کے الیکشن میں اپنا نا م چھوڑ گئے مگر اس کا فائدہ کس کو پہنچا یہ تو طے ہے کہ نہ مسلم لیگ ن کو اورنہ ہی تحریک انصاف کو بلکہ فائدہ میں جماعت اسلا می اور پی پی رہی ۔ چیئر مین بلا ول بھٹو اونچا بولتے ہیں کہ وہ اس مر تبہ پنجا ب کو فتح کر لیں گے اور ٹھاٹ سے حکو مت بنائیں گے جس طرح ان کے نا نا جا ن نے 70 کے انتخابات میں پنجا ب فتح کر کے ہند کو مشرقی پا کستان فتح کر نے کا پو را موقع دیا تھا ۔اللہ نہ کر ے ایسے حالات پید ا ہو ں لیکن عقل مند وںکو سمجھ آنا چاہیے کہ عوامی مینڈیٹ کو سبوتاژکرنے کے نتیجے میں ہی مشر قی پاکستان میں سیا سی بحران پید ا ہو ا تھا۔ بہر حال اب بلا ول پنجا ب کیسے فتح کر یں گے؟ کیا وہ بھی مسلم لیگ ن کے بارے میں نیا زی زبان استعمال کرکے آگے بڑھیں گے ؟ جما عت اسلا می اس انتخابات میں واحد جما عت تھی جو سب سے زیادہ معمر تھی باقی سب اس کی چھو ٹی بہنیں ہیں ۔ جما عت اسلا می وہ جما عت ہے جس کے بارے میں آج بھی یہ گما ن کیا جا تا ہے کہ اس جما عت میں سب اعلیٰ تعلیم یا فتہ لوگ ہیں جو صحیح بھی ہے ، تجربہ کا ر ہیں، اپنے مشن سے سنجید ہ بھی ہیں، منظم بھی ہے لیکن سیا سی جما عتو ں میں پیر فرتو ت ہو نے کے باوجود عوام کے اعتما د سے خالی ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے یہ تو جما عت کے اکابرین ہی بتا سکتے ہیں کہ برسو ں بر س کی سیا ست کے باوجود ان کا امید وار الیکشن میں اپنی ضما نت بھی نہ بچا سکا ۔
ادھر سراج الحق یہ ادعا کر تے ہیںکہ آئند ہ انتخابات میں وہ صوبہ پختونخوا میں حکو مت بنائیں گے ۔ اس امر کا امکا ن تو مشکل ہی ہے بلکہ ناممکن ہے ہا ںالبتہ وہ یہ دعویٰ کر یں کہ آئندہ حکومت میں بھی وہ شیئر حاصل کر یں گے تو بات سمجھ آتی ہے ۔ما ضی میں جب جماعت اسلامی کا نظریا تی سکہ عروج پر تھا ،اس زما نے میں جما عت اسلا می کا سیا سی اتحاد ایر ے غیر ے انداز میں نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس کی بنیاد نظریا ت ہی ہو تے تھے ، یہی وجہ تھی کہ جب فاطمہ جنا ح نے ایو ب خان کیخلاف صدارتی انتخا ب لڑا تو اس وقت جما عت اسلامی نے محترمہ فاظمہ جنا ح کی حما یت کی جس پر کئی طر ف سے سوال اٹھے کہ ایک نظریا تی جما عت اس اتحا د میںکیو ں شامل ہوئی ہے جس کی جما عت کے اکا برین نے جو اب دیا ، دلیل دی ، گو کہ اب بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ کے پی کے میں جماعت اسلامی کس نظریئے کی بنا ء پر تحریک کے ساتھ شریک اقتدار ہے جس کا عموما ً امیر جما عت اسلامی سراج الحق یہ کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ تحریک کے ساتھ جماعت اسلا می کا اتحاد صوبائی حکومت کے سیکر یٹریٹ کے گیٹ تک ہے یعنی کسی سیا سی نظریہ کی بنا ء پر نہیں بلکہ بلکہ سیکر یٹریٹ (حکومتی)بنیا د ہے ، اس سے ایک نظریا تی جماعت کا کوئی اور لینا دینا نہیں ۔

شیئر: