بلوچستان کے ایک دور دراز گاؤں میں نوجوان رضا کاروں کی قائم کردہ چھوٹی سی کمپیوٹر لیبارٹری نے اہم اعزاز حاصل کر لیا ہے۔
پاکستان کی سطح پر یہ واحد ادارہ ہے جسے گوگل، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشین وینچر فلانتھراپی نیٹ ورک (اے وی پی این) جیسے عالمی اداروں کے ایک بڑے پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
’اے آئی اپرچیونٹی فنڈ‘ سے اب یہ ’دیہی لیب ‘عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر پاکستان بھر کے نوجوانوں کو مقامی زبانوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کی مفت تربیت فراہم کرے گی۔
مزید پڑھیں
-
بیرونِ ملک روزگار، کون سی پروفیشنل ڈگریوں کی مانگ زیادہ ہے؟Node ID: 886437
-
’ترجمہ‘ کا عریبک اے آئی، چیٹ جی پی ٹی 40 کو پیچھے چھوڑ دیاNode ID: 888712
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اوتھل سے تقریباً60 کلومیٹر دور بیلہ کے گاؤں احمد آباد میں ’وانگ لیب آف انوویشن‘ کے نام سے اس ادارے کو ایک سماجی تنظیم ویلفیئر ایسوسی ایشن فار نیو جنریشن (وانگ) نے قائم کیا ہے۔
اس کامیابی کے پیچھے قیصر رونجھو اور ان کے نوجوان رضا کار ساتھیوں کی سوچ، عزم اور جدوجہد ہے ۔ قیصر رونجھو وانگ کے بانی اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں اوربلوچستان یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کر چکے ہیں۔ بعد ازاں امریکہ اور کینیڈا میں ترقیاتی علوم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے قیصر رونجھو نے کہا کہ’انٹرنیٹ ایسا ٹول ہے جو زندگیاں بدل سکتا ہے۔ میری زندگی بھی انٹرنیٹ نے ہی بدلی، مجھے نئے مواقع دیے اور ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ مواقع کراچی اور کوئٹہ جیسے بڑوں شہروں میں جاکر ملے لیکن ان کے گاؤں کے بچے خصوصاً لڑکیاں ان سے محروم تھیں۔ ’اسی لیے میں نے فیصلہ کیا کہ کمپیوٹر لیب اپنے گاؤں کے اندر ہی بناؤں تاکہ وہی سہولیات مقامی لوگوں کو ان کی دہلیز پر دستیاب ہوں۔‘
’وانگ ‘کا آغاز ابتدائی طور پر گاؤں کے نوجوانوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے کیا تھا۔ قیصر کے مطابق ’ہم نے پہلے گاؤں کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر تنظیم بنائی پھر اسے سماجی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا۔ سیلاب زدگان کے لیے پچاس گھر بنائے، خواتین کو کشیدہ کاری اور ان کی بچیوں کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ سکھائی تاکہ وہ اپنی مصنوعات آن لائن فروخت کر سکیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ 2022 کے آغاز میں ہم نے گاؤں میں کمپیوٹر لیب قائم کی جس کا مقصد خواتین، طلبہ اور ایسے طبقات کو ٹیکنالوجی کی تعلیم دینا تھا جو ان سہولیات سے محروم تھے۔
یہ لیب اب ملک کی پہلی ’رورل انوویشن لیب‘ کہلاتی ہے جو ٹیکنالوجی کو دیہی علاقوں کے پسماندہ طبقات تک پہنچا رہی ہے۔ ’ہم سولر پاور کے ذریعے بلا تعطل بجلی اور انٹرنیٹ فراہم کرتے ہیں اور بغیر کسی فیس کے خواتین، بچوں، کسانوں اور ٹیکنالوجی سے نابلد افراد کو تربیت دیتے ہیں۔ اب تک ہم گاؤں کے سینکڑوں افراد کو تربیت دے چکے ہیں۔‘
قیصر رونجھو کے مطابق ابتدا میں صرف فزیکل کلاسز رکھی تھیں بعد میں آن لائن تربیتی کورسز بھی شروع کیے۔انہوں نے بتایا کہ لیب کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد ہمیں جنریٹیو اے آئی کی خوشخبری ملی۔ ’ہمیں محسوس ہوا کہ یہ ٹیکنالوجی وہ رکاوٹیں توڑ سکتی ہے جنہیں عبور کرنے میں کئی نسلیں لگتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ انگریزی میں اے آئی سے متعلق بہت سا مواد موجود ہے لیکن اردو بولنے والے کروڑوں افراد ان معلومات سے محروم ہیں اسی لیے ہم نے اپنی لیب کے ذریعے ’اردو اے آئی‘ کی بنیاد رکھی۔
’اردو اے آئی‘ کے پلیٹ فارم سے مصنوعی ذہانت کی مفت تربیت دی جاتی ہے۔ وانگ کے ڈائریکٹر پروگرام خلیل رونجھو کے مطابق ’ہمارے پاس نہ صرف گاؤں بلکہ قریبی شہر سے بھی طلبہ و طالبات آتے ہیں جنہیں ہم کمپیوٹر اور آرٹیفیشل ذہانت کے کورسز کراتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں تک کو اے آئی سکھا رہے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ کیسے موسم، کھاد ،پودوں کی معلومات اور جدید زرعی طریقوں کے بارے میں اے آئی سے جان سکتے ہیں۔‘
قیصر رونجھو کہتے ہیں کہ ’اردو اے آئی ‘ کی اپنی ویب سائٹ ہے اس کے علاوہ ہم اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ویڈیوز اور تربیتی مواد شیئر کرتے ہیں- انٹرنیٹ کی مدد سے ہر مہینے 20 سے 25 لاکھ افراد تک پہنچتے ہیں ہمارے پانچ لاکھ سے زائد ایکٹیو فالوورز ہیں جو ہم سے آسان الفاظ میں اے آئی سیکھتے ہیں۔‘

’وانگ ‘نے کئی اے آئی ٹولز کو اردو میں ڈھالا ہے، چار گائیڈ بکس شائع کی ہیں جو سب کے لیے مفت دستیاب ہیں- اردو کے علاوہ بلوچی اور دیگر مقامی زبانوں میں تربیت دینے والے ٹرینرز تیار کیے ہیں تاکہ زبان کی رکاوٹوں کو دور کر سکیں۔
انہی کوششوں کے نتیجے میں مئی کے آغاز میں جب ایشین وینچر فلانتھراپی نیٹ ورک (AVPN) نے ایشیا پیسفک کے 49 ایسے اداروں کا انتخاب کیا جو کمزور اور پسماندہ کمیونٹیز کو اے آئی کی مہارتیں سکھا رہے ہیں تو پاکستان سے صرف ’وانگ‘ کو اس پروگرام کا حصہ بنایا۔
اے وی پی این کے ’ٹرین دی ٹرینر‘ پروگرام کے تحت وانگ کو اب مالی مدد اور بین الاقوامی ماہرین کی رہنمائی حاصل ہوگی جس سے یہ ادارہ پسماندہ طبقات میں اے آئی کی تربیت اور اس کے ذریعے روزگار کے مواقع کو وسعت دے سکے گا۔
قیصر رونجھو کہتے ہیں کہ یہ شراکت داری عالمی سطح پر ہمارے کام کا اعتراف ہے اور یہ ایک بڑی جیت ہے کہ ایشیا پیسیفک کے ممتاز اداروں کے درمیان بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی نمائندگی ہو رہی ہے۔
ان کے بقول بنیادی سہولیات سے محروم پسماندہ گاؤں کے چند نوجوانوں کی اس کاوش کی پذیرائی ملنا اعزاز ہے۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں سے بھی عالمی سطح پر علم، قیادت اور اثر قائم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ہم ’اردو اے آئی ‘کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت زیادہ مؤثر انداز میں دے سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اردو اے آئی پلیٹ فارم کے ذریعے اب فزیکل کلاسز کا دائرہ کار بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ اس نئے منصوبے کے تحت ڈیڑھ سال میں پاکستان بھر کے 6 ہزار افراد کو بنیاد ی اے آئی تربیت دی جائے گی ۔ اس پروگرام میں ہماری ترجیح بلوچستان کے پسماندہ طبقات ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اردو اے آئی بلوچستان جیسے علاقوں میں مصنوعی ذہانت کی تعلیم کو مقامی زبان اور مقامی ضرورتوں کے مطابق عام کررہا ہے جہاں ٹیکنالوجی تک رسائی ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔
قیصر رونجھو کے بقول اس پروگرام کے ذریعے اردو اے آئی نہ صرف مقامی سطح پر طلبہ بشمول مدارس کے طلبہ ،نوجوانوں، خواتین، اساتذہ اور چھوٹے کاروباری افراد کو سکھائے گا بلکہ انہیں مستقبل کے روزگار کے لیے عملی طور پر تیار بھی کرے گا۔
اے وی پی این کے مطابق آئندہ سالوں میں مصنوعی ذہانت پر مبنی معیشت میں 9 کروڑ نئی نوکریوں کے امکانات ہیں اسی لیے وہ گوگل اور اے ڈی بی کی مدد سے چھوٹے کاروباروں اور مزدوروں کو AI کی تربیت دے رہا ہے تاکہ وہ اس نئی معیشت میں کامیاب ہو سکیں۔
گوگل اکنامک امپیکٹ رپورٹ کے مطابق اگر ایشیا پیسیفک کے ممالک نے مؤثر طور پر AI کو اپنایا تو 2030 تک کاروباروں کو تین ٹریلین ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
قیصر رونجھو کہتے ہیں کہ ’اگر ہم نے اے آئی کو صحیح طریقے سے نہ اپنایا تو نہ صرف نئے مواقع سے محروم ہوں گے بلکہ پرانی نوکریاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مشن سکھانا ہی نہیں بلکہ شعور دینا بھی ہے کہ اے آئی کو محض شارٹ کٹ نہ سمجھا جائے بلکہ تخلیقی سوچ بڑھانے کا ذریعہ بنایا جائے۔‘
