Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” شاعر“ شعر کہتا رہا ،”غزل“سنتی رہی

 
ریشمی آنچل سر سے ڈھلکتا،وہ شانہ اُچکا کر زقن سے ملاتی اور آنچل سنبھالتی
شہزاد اعظم۔جدہ
”غزل“کا معاشرتی و معاشی جاہ و مرتبہ ”شاعر“سے زیادہ تھا۔ اسی لئے ”غزل“کی والدہ نے میری امی جان سے کہا تھا کہ ہم ”غزل“ اور ”شاعر“ کا نکاح کر دیتے ہیں ، جب ”شاعر“ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو کر الگ مکان لے کر اسے سجا بنا لے گا تو میں ”غزل“ کی رخصتی کر دوں گی تاکہ وہ آپ کے بیٹے کے مکان کو ”گھر“ بنا دے۔انہوں نے میری امی جان سے یہ شرط بھی تسلیم کروا لی کہ آپ کا بیٹا اپنی منکوحہ سے ملنے خواہ روز آئے مگر ”غزل“ رخصتی سے قبل ”شاعر“ کی دہلیز پر قدم نہیں رکھے گی۔”غزل“کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ میں نے غزل نما چند اشعار کہے، مثال کے لئے ایک شعرعرض ہے :
”گُل کو ہے ناز اپنی خوشبو پر
ہم کو ہے ناز ، تم ہماری ہو“
میں نے کہا یہ اشعارآپ کے لئے ہیں، میں نے کہے ہیں، اُس نے کہا ، بات سیدھی سی ہے کہ آپ نے اشعار کہے تو ”شاعر“ ہوئے، یہ شعر میرے لئے ہیںتو ”غزل“ میں ہوئی۔اُس کی یہ بات مجھے بے حد پسند آئی اور میں نے اس سے کہا کہ آئندہ یہ شاعرجو کہے گا وہ غزل ہوگی جو میری ”غزل“ کے لئے ہوگی۔پھر یوں ہوا کہ” شاعر“ شعر کہتا رہا اور ”غزل“اشعارسنتی رہی۔اخبار کے دفتر میںخدمات انجام دینے کے لئے میں رات 8بجے پہنچتا، راستے میں ”غزل“کے ہاں جاتا، ایک عدد میٹھا پان لے جاتا، دروازے کی گھنٹی بجاتا، وہ دروازے میں لگے آنکھ نما عدسے”میجک آئی“ یعنی ”چشمِ سحر“ سے دیکھتی، دروازہ کھولتی اور نیم وا دروازے کی آڑ سے بایاں ہاتھ بڑھا تے ہوئے سلام کرتی اورکر اپنا پان طلب کرتی، میں پان اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے سلام کا جواب دیتا، اب وہ پورادروازہ کھولتے ہوئے حسین انداز میں مسکراتی اور اظہارِ تشکر کرتی۔عصر کا تنگ وقت ہوتا جس میں نہ ظہرانہ ہوسکتاتھا نہ عشائیہ، چنانچہ وہ ”چائیہ“قرار دے کر چائے بناتی، قہوہ چائے دانی میں ہوتا اور اس پر ”ٹیکوزی“چڑھی ہوتی، پورسیلین کی پیالی، پرچ اور چمچی ہوتی ، دودھ دان کے ساتھ چینی دان، گویا چائے کا سارا خاندان ایک ٹرے میں رکھ کر وہ ڈائننگ ٹیبل پربراجمان ہوتی، کرسی کھینچتی اور مجھے بلاتی،چائے پیالی میں انڈیلتی، چینی حل کرتی، ”حنایاب“ہاتھوں سے چائے میں چینی ملاتی توایک پیالی کی دیواروں سے چمچ ٹکراتا اوردوسری جانب کلائی میں جھولتی کانچ کی چوڑیاں باہم متصادم ہوتیں تو فضا میں ”نسوانی موسیقی“کے رومان انگیز جلترنگ بج اٹھتے۔میرا ”بے زبان دل“چِلا چِلا کراس شعر کی سچائی کی گواہی دینے لگتا کہ ”وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“۔وہ پرچ میں پیالی رکھ کر چائے میری جانب بڑھاتی تو اکثر اس کا ریشمی آنچل سر سے ڈھلک جاتا،وہ اپنا شانہ اچکا کر زقن سے ملاتی اور آنچل کو سنبھالتی،شرم کے مارے اس کی آنکھیں جھک جاتیں، حیا کے رنگ چہرے پر نمودار ہوجاتے۔ میرا دل چاہتا کہ وہ چائے میری جانب یونہی بڑھائے رکھے اور میں ساری زندگی اس کے ہاتھ سے پیالی نہ لوں۔(باقی آئندہ)
 
 
 
 
 
 

شیئر: